ایک نیوز: سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے ریٹرننگ افسران کیخلاف فیصلہ معطل کردیا ۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے دائر درخواست پر چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس طارق مسعود، جسٹس منصور علی شاہ نے الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت کی ۔
سپریم کورٹ نے لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر کے آئندہ آر اوز اور ڈی آر اوز سے متعلق درخواستوں پر کارروائی نہ کرنے کی ہدایت بھی کی جبکہ بیرسٹر عمیر نیازی کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی شروع کرنے کا بھی فیصلہ کیا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ انتخابات کا انعقاد آئین کا تقاضہ ہیں، ہائی کورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ کے فیصلے متضاد ہے۔
سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ 13 دسمبر کے حکم نامے کے خلاف الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، لاہور ہائی کورٹ نے سیکشن 50 کے سب سیکشن 1 بی اور 51 کی سب سیکشن 1 کو غیر آئینی قرار دیا، الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن ایکٹ کی یہ دونوں شقیں گزشتہ انتخابات میں بھی تھیں لیکن کبھی کسی نے چیلنج نہیں کیا گیا۔
عدالتی حکم میں لکھا گیا کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے تحریک انصاف نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا، سپریم کورٹ میں کیس کے ذریعے انتخابات 8 فروری کو طے ہوئے، تمام صوبائی حکومتوں کی سپریم کورٹ میں نمائندگی تھی، ہم نے اپنے فیصلے میں لکھا کوئی بھی جمہوریت کو ڈی ریل نہ کرے۔
حکم نامے میں لکھا گیا کہ وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا ابھی انتخابات کے انعقاد بارے اقدام لے رہے ہیں، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ برقرار رہا تو 8 فروری کو الیکشن نہیں ہوسکیں گے، الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا آج انتخابی شیڈول جاری ہونا تھا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ بتایا گیا اگر ہائی کورٹ کا حکمنامہ برقرار رہا تو الیکشن پروگرام جاری نہیں ہوسکے گا، وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہائی کورٹ کے حکمنامے میں تضاد ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم میں لکھا گیا ہے کہ عمیر نیازی کو توہین عدالت قانون کے تحت شوکاز نوٹس جاری کیا جارہا ہے اور اُن کیخلاف توہین عدالت کا کیس چلایا جائے گا، عمیر نیازی بتائیں ان کیخلاف توہین عدالت کی کاروائی کیوں نہ چلائی جائے۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ امید ہے الیکشن 8 فروری 2024 کو ہی ہوں گے۔ اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل شکیل سواتی نے کہا کہ ہم اس کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔اس پر جسٹس سردار مسعود نے کہا کہ آپ کوشش کی بات کیوں کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری فلائٹ مس ہوئی آپ کیسے مداوا کرینگے؟ لیکن کوئی بات نہیں ہم عدالت میں کیس لگا کر سن رہے ہیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ میں درخواست لے کر کون گیا تھا؟ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے درخواست دائر کی تھی۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ ایڈیشنل سیکرٹری جنرل تحریک انصاف عمیر نیازی نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور الیکشن ایکٹ کی شق 50اور 51 کو چلینج کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں انصاف دے رہا ہوں، کمیٹی میں مشاورت کے بعد کیس آج مقرر ہوا۔ جسٹس اعجاز الاحسن صاحب مصروفیت کے باعث شریک نہیں ہوئے۔ اس لئے سینئر جج منصور علی شاہ کو بینچ میں شامل کیا، یہ وقت شفافیت اور احتساب کا ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ جو بینچ کیس سن رہا ہے اس کی منظوری جسٹس اعجاز الاحسن نے بھی دی ہے کیونکہ میں اکیلے بینچ تشکیل نہیں دے سکتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ان (الیکشن کمیشن کے وکیل) کا کہنا ہے شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے لاہور ہائی کورٹ سے رابطہ کیا، بیورو کریسی سے آر آوز ڈی آر آوز لینے سے شفافیت پر کیسے سوال اٹھاَ تحریک انصاف کو اس وقت کیوں یاد آیا جب آر آوز ڈی آراوز تعینات ہوگئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریٹرننگ آفیسر اور ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز دینے کا استحقاق متعلقہ ہائیکورٹس کا ہے۔
اس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی ڈی آر اوز اور آر آوز نہیں دیے۔ فروری میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے یہ کہہ درخواست مسترد کردی تھی کہ 13 لاکھ کیسز زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے ریمارکس دیے کہ کیا تحریک انصاف چاہتی ہے ملک میں انتخابات نہ ہوں۔ چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کیا ہائیکورٹ کا ایک جج اپنے چیف جسٹس کو کہہ سکتا ہے جوڈیشل افسران نہ دو، کیا اب لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔
جسٹس طارق مسعود نے الیکشن کمیشن کے وکلا سے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی حکم کے بعد کیوں ٹریننگ روکی اور اپنا معطلی کا نوٹی فکیشن کیوں جاری کیا؟
انہوں نے ریمارکس دیے کہ آر اوز کی معطلی کا نوٹی فکیشن جاری کرنے کا مقصد بظاہر یہ لگتا ہے کہ الیکشن کمیشن بھی انتخابات نہیں چاہتا؟ جسٹس سردار طارق نے کہا کہ عدالتی فیصلے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ الیکشن کمیشن بھی معطلی کا نوٹی فکیشن جاری کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا سیاسی جماعت سے آر او اور ڈی آر او مانگے جا رہے ہیں؟ عدلیہ سے ڈی آر او آر او نہ ہوں ایگزیکٹو سے نہ ہوں تو پھر کہاں سے ہوں؟ اصل مقصد تو یہ لگتا ہے ملک میں انتخابات ہی نہ ہوں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’یہ عمیر نیازی کون ہے، کیا انہیں پی ٹی آئی نے کہا تھا کہ ہائی کورٹ جائیں‘۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ عمیر نیازی نے انفرادی حیثیت میں ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمیر نیازی کیا کسی کا رشتہ دار ہے، عمیر نیازی نے سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کی، جس جج نے پہلے فیصلہ دیا اسی کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ بنا دیا گیا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کمیشن سے کبھی رجوع کیا گیا۔ جس پر الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ کسی نے رجوع نہیں کیا۔ اس پر جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ ہمارے فیصلے کو ڈی ریل کون کر رہا ہے۔
ایک موقع پر چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا کمرہ عدالت میں کوئی پی ٹی آئی سے ہے؟ جس پر سب کمرہ عدالت میں دیکھنے لگے اور پھر کمرہ عدالت میں خاموشی چھا گئی۔
سردار طارق مسعود نے سوال اٹھایا کہ عدالتی حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے ڈی آر او اور آر او کی تربیت کا عمل کیوں روکا۔ انتخابات کو ڈی ریل کرنے کے پیچھے کون ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ 7دن کی تربیت ہونا تھی لیکن ہائی کورٹ کے فیصلے سے روک گئی۔ اٹارنی جنرل نے کہا مجھے ہائی کورٹ میں سماعت کا علم ہی نہیں تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا اٹارنی جنرل سے سب کچھ مخفی رکھا گیا؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سندھ والے بلوچستان جا کر انتخابات رکوا دیتے ہیں، یہ بہت عجیب صورتحال ہے۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ہائیکورٹ کی کاروائی سے ہم 3 سے 4 دن پیچھے چلے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا ہائی کورٹ کے جج نے مس کنڈکٹ کا مظاہرہ کیا، جج کے مس کنڈکٹ پر معاونت کریں، کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس باقر نجفی نے مس کنڈکٹ کیا؟ لاہور ہائی کورٹ کا جج پنجاب کے باہر سے معاملات پر کیسے فیصلہ دے سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ عمیر نیازی نے جمہوریت کو ڈی ریل کیا، جس پر ہم توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے، ہم نے تو اسی تحریک انصاف کی درخواست پر فیصلہ کیا تھا۔ جسٹس باقی نجفی کے حوالے سے چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ وہی جج ہے جس نے بجلی کے بلوں پر فیصلہ دیا تھا، جج تو آئیں کے پاسداری کا حلف اٹھاتا ہے، کیا لاہور ہائی کورٹ کے جج نے اپنے ہی چیف جسٹس کے خلاف رٹ منظور کی‘۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے روسٹروم پر کھڑے وکلا سے سوال کیا کہ ’چیک کریں یہ عمیر نیازی وکیل ہے بھی یا نہیں، لگتا ہے مقصد یہ تھا کہ ملک میں کبھی انتخابات ہو ہی نہ سکیں۔ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کے وکلا سے سوال کیا کہ الیکشن شیڈول کدھر ہے ہمیں دکھائیں، آج ہی شیڈول جاری کریں اور ہمیں ابھی دکھائیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ الیکشن کمیشن عدالتی حکم کے بعد خود سے آر اوز اور ڈی آر اوز کی معطلی کا نوٹیفکیشن کیوں جاری کیا، الیکشن کمیشن نے غیر ضروری مشق کی، ٹریننگ کیوں روکی گئی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جسٹس باقر نجفی نے بجلی کے بلوں کا کیس سن کر کتنا نقصان پہنچایا۔ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ 500 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن بتائے ابھی تک شیڈول جاری کیوں نہیں کیا، قانون بتائیں کہاں لکھا ہے کہ ٹریننگ کے بعد شیڈول جاری ہوگا۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اسلام آباد اور لاہور ہائیکورٹس کے فیصلوں کو سپریم کورٹ میں چلینج کیا گیا، جس کو سپریم کورٹ نے آج ہی سماعت کیلیے مقرر کیا۔ کمرہ نمبر ایک کی عدالت میں چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے درخواست پر سماعت کی۔
قبل ازیں چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی ملاقات ہوئی۔
تفصیلات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی سپریم کورٹ آمد ہوئی ہے، چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی۔
ملاقات میں جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس اعجازالاحسن موجود تھے،اٹارنی جنرل نے بھی ملاقات میں شرکت کی۔
چیف الیکشن کمشنر سکندرسلطان راجہ نے نے ججز کو لاہور ہائیکورٹ کے حکم امتناع سے آگاہ کیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر چیف جسٹس کی دعوت پر سپریم کورٹ آئے،ملاقات لاہور ہائیکورٹ کے ڈی آر اوز اور آر اوز سے متعلق حکم سے پیدا صورتحال پر ہو رہی ہے،چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پہلے دو سینئر ججز سے ملاقات کی۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ چیف جسٹس نے لاہور ہائیکورٹ کے آرڈر پر سینئر ججز سے مشاورت کی،مشاورت کے بعد اٹارنی جنرل اور چیف الیکشن کمشنر کو طلب کیا گیا۔
ذرائع کےمطابق ملک میں انتخابات کا کیس آج ہی مقرر کئے جانے کا امکان ہے ، عام انتخابات کا کیس آج ہی ہنگامی بنیادوں پر سماعت کے لیے مقرر ہونے کا امکان ہے ،اس حوالے سے چیف جسٹس کی زیر صدارت اجلاس ہوا ،مشاورت کے بعد کسی بھی وقت عدالت لگائے جانے کا امکان ہے ۔