ایک نیوز:سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریماکس دیتے ہوئے کہا کہ بس لوگوں کو خرید لو پروپیگنڈہ کرنے کیلئے ،میں نے زندگی میں جو خریدا اپنی کمائی سے خریدا،ہر ادارے کو تباہ کردو بس ،ہمت جرت ہے تو عدالت آؤ بتاو کیا غلطی ہے،ہر ایک کا ایجنڈا ہے،ساری حکومت آج عدالت میں کھڑی ہے لیکن معلوم کچھ نہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیشنل پارک کو مجموعی طور پر بچانا ہے ، خوبصورتی ساری مارگلہ ہلز کی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ملک اب لینڈ مافیا کے حوالے ہے،سپریم کورٹ پر سب سے پہلے ہم نے انگلی اٹھائی ،10,10سال سے خلاف قانون بیٹھنے والوں کو واپس بھیجا ، چیف جسٹس نے یہ کردیا وہ کردیا، ذاتی حملہ گالی گلوچ کر لو بس،میں آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہوں، آج تک کسی کیخلاف کارروائی نہیں کی ،سیکریٹری کابینہ نے سچ نہ بولا تو نتائج بھگتیں گے ۔
سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سیکریٹری کابینہ کامران علی افضل چیئرمین سی ڈی اے پر برہم ہوئے۔
سپریم کورٹ نے پائن سٹی کے مالک کیپٹن صدیق انور کو فوری طلب کرلیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیپٹن ریٹائرڈ صدیق انور نے اپنا ایڈریس جی ایچ کیو کا کیوں لکھا ہے ؟ پائن سٹی جی ایچ کیو کا منصوبہ ہے یا پرائیویٹ ؟ایسا ظاہر کیا گیا جیسا یہ فوج کا منصوبہ ہے،صدیق انور نے نام کے ساتھ کیپٹن لکھا لیکن نام نہیں لکھا۔
کیس سماعت کے دوران 190 ملین پاونڈ کیس کا تذکرہ ہوا تو چیف جسٹس نے کہا کہ 190 ملین پاونڈ والا بھی بلڈر ہی تھا ،لوگوں کو گالیاں دینے کیلئے ہائیرکرلو بس ،بلڈر کے خلاف کوئی خبر نہیں چلے گی،ہم نے حکم دیا تو عدالت کو گالیاں دی گئیں ،ہم نے تو صرف عوام کا پیسہ واپس بھیجنے کا حکم دیا۔
چیف جسٹس نے مزید اپنے ریماکس میں کہا کہ ایسے مافیا سے مقابلہ کیلئے ہمارے پاس کوئی میڈیا ٹیم نہیں،فارن حکومت نے پیسہ واپس کیا ہم نےاسکو لوٹا دیا،مستقبل میں وہ ملک کیا سوچے گا،انکو پیسہ دو یہ واپس اسی شخص کو دیتے ہیں ،سندھ میں بھی اس کیس کو دبا دیا گیا،پیسہ کا معاملہ ہے لیکن کوئی احتساب نہیں۔