کرد سیاستدان عبداللطیف رشید عراق کے نئے صدر منتخب

newly elected iraqi president abdul latif rasheed
کیپشن: newly elected iraqi president abdul latif rasheed
سورس: google

  ایک نیوز نیوز: عراقی پارلیمنٹ نے کرد سیاستدان عبداللطیف رشید کو ’برہم صالح‘ کے جانشین کے طور پر عراق کا نیا صدر منتخب کرلیا۔ 

 رپورٹ کے مطابق پہلے دور میں عراقی پارلیمنٹ صدر کے انتخاب میں ناکام ہوگئی تھی۔ جمعرات  13 اکتوبر 2022 کو ہی دوسرا دور منعقد ہوا جس میں عبداللطیف رشید اور برہم صالح کے درمیان صدر کے عہدے کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ 

پہلے دور کے اختتام پر سپیکر محمد الحلبوسی نے کہا تھا کہ دوسرے دور میں جو امیدوار بھی سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرے گا اسے ملک کا صدر قرار دے دیا جائے گا۔ 
اخبار  24 کے مطابق عبداللطیف رشید کے حق میں  162 ارکان پارلیمنٹ نے ووٹ دیا جبکہ برہم صالح  کے حق میں  99 ووٹ پڑے۔ جن کی مدت صدارت مکمل ہوچکی ہے۔ 8 ووٹ کالعدم قرار دے  دییے گئے۔ 
نئے عراقی صدر عبداللطیف رشید نے صدارتی انتخاب میں کامیاب ہوجانے پر حلف وفاداری اٹھالیا۔ وہ عراق کے 10 ویں صدر ہیں۔ منتخب عراقی صدر نے محمد شیاع السودانی کو نئی کابینہ تشکیل دینے کی ذمہ داری تفویض کردی۔
عراق میں تین بڑے اور اہم سیاسی دھڑے ایک مدت سے سرگرم رہے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا مسلم شیعہ گروپ جبکہ دوسرا مسلم سنی گروپ ہے۔ تیسرا اہم سیاسی دھڑے کا تعلق کرد نسلی گروہ سے ہے۔یہ تینوں ایک روایتی سیاسی معاہدے کی پاسداری کرتے رہے ہیں، جس کے تحت عراقی حکومت کا سربراہ یعنی وزیر اعظم شیعہ ہوتا ہے جبکہ کرد صدر بنتا ہے اور سنی گروپ کا رہنما پارلیمان کا اسپیکر کا عہدہ سنبھالتا ہے۔ اس طرح ملک میں سیاسی قوت ان تین گروپوں میں منقسم ہوتی ہے۔

لیکن عراق میں مقتدیٰ الصدر کی قیادت میں ایک اور حریف شیعہ سیاسی دھڑا اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے نئے وزیر اعظم کے انتخاب کے لیے کوششیں کرتا رہا ہے۔گزشتہ برس اکتوبر میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر کے اتحاد نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کی تھیں۔ تاہم وہ اپنے حق میں درکار مطلوبہ حمایت حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔ انہوں نے بطور احتجاج گزشتہ اگست میں اپنے تمام اراکین کے ساتھ پارلیمان سے استعفیٰ دینے کا اعلان کر دیا تھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیا جائے اور دوبارہ انتخابات کرائے جائیں۔

اس صورت حال میں نامزد وزیر اعظم السوادنی کے لیے مقتدی الصدر کے حامیوں کی حمایت حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہو گا، حالانکہ انہیں شیعہ مسلم 'کوآرڈینیشن فریم ورک' کے ایران نواز دھڑوں کی حمایت حاصل ہے۔عراقی آئین کے تحت عام انتخابات کی تکمیل کے بعد سب سے پہلے قانون سازوں کو صدر کا انتخاب کرنا پڑتا ہے اور پھر وہ وزارتِ عظمیٰ کے لیے نامزد امیدوار کو ووٹ کر سکتے ہیں۔قانون سازوں نے اس سے پہلے فروری اور مارچ میں نئے سربراہ مملکت کے انتخاب کے لیے تین بار کوششیں کی تھیں، لیکن چونکہ الصدر نے اپنے قانون سازوں کو اجتماعی طور پر استعفیٰ دینے کا حکم دیا تھا، اس لیے وہ مطلوبہ دو تہائی ارکان کی موجودگی حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔