ایک نیوز: لاہور ہائیکورٹ نے سینئر صحافی رضوان رضی کیخلاف بغاوت سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمے کا ٹرائل روک دیا۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس علی باقر نجفی نے ٹرائل کیخلاف رضوان رضی کی درخواست پر سماعت کی۔ سینئر صحافی رضوان رضی کی طرف سے میاں داؤد ایڈووکیٹ پیش ہوئے۔ عدالت نے ایف آئی اے سے تین ہفتوں میں جواب طلب کر لیا۔
جب ایف آئی آر میں الزامات کی کوئی وضاحت ہی نہیں ہے تو پھر صحافی کا ٹرائل کیوں ہو؟
میاں داؤد ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل میں کہا کہ تحریک انصاف کے دور میں صحافی رضوان رضی کیخلاف بغاوت سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمے درج ہوا، ایف آئی آر میں لکھا گیا کہ صحافی نے اداروں اور عدلیہ کیخلاف ٹوئٹر پر مواد اپ لوڈ کیا، چار سال بعد اب مقدمے کا ٹرائل شروع ہوا تو پتہ چلا کہ پراسیکیوشن نے ایک بھی ثبوت اکٹھا نہیں کیا، پراسکیوشن کے اکٹھے کردہ مواد کو تسلیم کر بھی لیں تو بھی کوئی جرم نہیں بنتا، ایف آئی اے نے بغاوت کی دفعہ لگانے سے قبل وفاقی حکومت سے کوئی منظوری نہیں لی۔
رضوان رضی کے وکیل نے دلائل میں مزید کہا کہ تحریک انصاف نے صحافی کیخلاف مقدمہ کا اندراج صرف میڈیا کو خوفزدہ کرنے کیلئے درج کروایا، آئین پاکستان صحافت اور آزادی اظہار رائے کو تحفظ فراہم کرتا ہے، سپریم کورٹ نے صحافیوں سمیت کسی بھی پاکستانی کیخلاف بغاوت جیسی دفعات کے تحت مقدمات کے اندراج کو غیرقانونی قرار دیا ہے، ایسی صورتحال میں ایک صحافی کو ٹرائل میں سے گزارنا صحافت کو خوفزدہ کرنے اور آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا، ٹرائل کورٹ نے بریت کی درخواست مسترد کرتے وقت حقائق، قانون اور آئین کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا۔
لاہور ہائیکورٹ سے استدعا کی گئی کہ بریت کی درخواست منظور کرکے صحافی رضوان رضی کو بری کرنے کا حکم دیا جائے۔