استنبول بم دھماکہ میں ملوث شامی خاتون گرفتار

اب تک 6افراد کی ہلاکت اور 51 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
کیپشن: اب تک 6افراد کی ہلاکت اور 51 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔

ایک نیوز نیوز: استنبول دھماکے میں  شامی خاتون کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔  سوشل میڈیا پر دھماکے سےمتعلق نشریات پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ 
ترکی کی سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نیوز ایجنسی کے مطابق ترکی نے استنبول بم دھماکے کا ذمہ داری کردستان ورکرز پارٹی (پی کے کے) پر عائد کرتے ہوئے استنبول کے سیاحتی علاقے میں بم نصب کرنے والی شامی خاتون کو گرفتار کر لیا ہے۔ 

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ترکیہ کی پولیس نے پیر کو ایک بیان میں بتایا ہے کہ مذکورہ خاتون کرد عسکریت پسندوں کے لیے کام کر رہی تھیں۔
دوسری جانب ترکیہ نے استنبول دھماکے کی امریکی مذمت کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم امریکی سفارت خانے کے تعزیتی پیغام کو قبول نہیں کرتے۔

 ترکی کے وزیر داخلہ سلیمان سوئلو نے اپنے بیان میں کہا کہ ’جس فرد نے بم نصب کیا تھا اسے گرفتار کر لیا گیا ہےتفتیش کے مطابق دہشت گرد تنظیم پی کے کے اس کی ذمہ دار ہے۔ انقرہ پی کے کے کو کالعدم قرار دے چکا ہے اس کے علاوہ کئی مغربی ممالک نے بھی اس گروپ کو بلیک لسٹ کر رکھا ہے۔ یہ تنظیم ترکی میں 1980 کی دہائی سے ہی علیحدگی پسندی کی تحریک چلا رہی ہے۔اس حملے میں اب تک 6افراد کی ہلاکت اور 51 کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
اتوار کو استبول کی استقلال سٹریٹ میں ہونے والے اس حملے کے حوالے سے ترک صدر رجب طیب اردوان کا کہنا تھا کہ یہ کہنا غلط ہو گا کہ یہ دہشت گرد حملہ ہے لیکن اگر ہم ابتدائی شواہد کو دیکھیں تو یہ دہشت گردی محسوس ہوتی ہے۔انڈونیشیا میں جی ٹوئنٹی سمٹ کے لیے روانگی سے قبل انہوں نے اس بم دھماکے کو ایک بزدلانہ حملہ قرار دیا۔
استنبول میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سلیمان سوئلو ن کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے ذریعےترک عوام کو شکست دینے کی کوششیں آج بھی اسی طرح ناکام ہوں گی جس طرح پہلے ہوئی تھیں اور آئندہ بھی ناکام ہوں گی۔ ہم امریکی سفارت خانے کے تعزیتی پیغام کو قبول نہیں کرتے۔ ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔
استنبول کے چیف پبلک پراسیکیوٹر کی جانب سے دھماکے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس کیلئے پانچ سرکاری تفتیش کار مقرر کیے گئے ہیں۔استنبول کریمنل کورٹ آف پیس نے دھماکے سے متعلق تمام بصری اور آڈیو خبروں سمیت سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر نشریات کی پابندی عائد کردی ہے۔

 پولیس نے علاقے کا کنٹرول سنبھالتے ہوئے اسے آمدورفت کے لیے بند کر دیا ہے جبکہ تحقیقات کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔استقلال سٹریٹ استنبول کا سب مصروف علاقہ ہے جہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا گزر ہوتا ہے جن میں سیاح بھی شامل ہیں۔
واضح رہے کہ ترکی کو 2015 اور 2017 کے درمیان داعش اور کالعدم کرد گروپوں کی جانب سے کئی مہلک بم دھماکوں کا نشانہ بنایا گیا تھا۔