سدھیر چودھری: سردی میں ہو گی جی بھر کے گیس کی لوڈ شیڈنگ، شہری تیار ہو جائیں۔ اب 24 گھنٹوں میں صرف 8 گھنٹوں کے لئے چولہے کھانے کے لئے روشن ہوں گے۔
تفصیلات کے مطابق گرمیوں میں بجلی بحران ہوتا تھا اور اب سردیوں میں گیس کا بحران سر پر منڈلانے لگا ہے ۔ شہریوں کو گرم کھانا ملے گا، نا ہی کڑک چائے پی جا سکے گی۔ سوئی گیس حکام کے مطابق گیس لوڈ مینجمنٹ پلان تیار کر لیا گیا جس کے مطابق صبح 3 گھنٹے ،دوپہر 2 گھنٹے اور شام 3 گھنٹے ہی گیس مہیا ہو گی ۔ دوسری طرف کھانا بنانے کے لئے 250 سے 350 روپے گیس کا بل دینا پڑتا ہے لیکن اگر ہیٹر، گیزر لگایا گیا تو بل کی کوئی گارنٹی نہیں۔ کھانے کے لئے اوقات کار سے ہٹ کر چولہا جلانا ہے تو پھر 202 روپے فی کلو کے حساب سے ایل پی جی خریدنا ہو گی اور ایک کچن کے لئے ایل پی جی کا ماہانہ بل 3100 سے 4000 روپے بن سکتا ہے۔
سوئی گیس حکام کے مطابق اس وقت سسٹم میں گیس کی فراہمی 700 ایم ایم سی ایف ڈی ہے جبکہ موسم سرما کے پنجاب اور کے پی کے میں گیس کی مانگ2300 ایم ایم سی ایف ڈی ہو سکتی ہے جو کہ موسم سرد اور پھر شدید سرد ہونے کی صورت میں3000 ایم ایم سی ایف ڈی تک پہنچ سکتی ہے۔ درآمدی آر ایل این جی کی سپلائی شامل کرکے بھی گیس کی قلت 500 سے 700 ایم ایم سی ایف ڈی رہ جائے گی جس کی وجہ سے شیڈول سے ہٹ کر اضافی آر ایل این جی منگوانا ہو گی۔ گیس کی قلت کو پورا کرنے کے لئے شیڈول کے مطابق 850 سے 950 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی درآمد کی جا رہی ہے۔ موسم سرما میں گیس کی سپلائی 1700 سے 1800 ایم ایم سی ایف تک ہو جائے گی۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گھر کے پانچ افراد کا کھانا بنانے کے لئے کوارٹر سے آدھا یونٹ ایچ ایم گیس کی ضرورت ہوتی ہے اور ایک ایچ ایم گیس تقریبا تین عشاریہ سات ایم ایم بی ٹی یو کے برابر ہے۔ گھریلو صارفین کو ایک ایچ ایم مکعب سے کم استعمال پر گھریلو صارفین کو کم از کم بل 250 سے 270 روپے بل چارج ہو گا جبکہ ایک ایچ ایم مکعب گیس ایل پی جی کے دو سلنڈرز کے برابر ہے جس کا بل 3100 روپے 4000 روپے ہو سکتا ہے۔ سوئی گیس حکام کے مطابق ڈومیسٹک صارفین کی تعداد 70 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور کمرشل صارفین بشمول تندور کی تعداد 55 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ حکام کے مطابق صنعتی صارفین کی تعداد قریبا 6 ہزار 5 سو ہےجبکہ دونوں صوبوں کے پاور اسٹیشنز کو گرمیوں میں 900 اور سردیوں میں 400 سے 450 ایم ایم سی ایف ڈی گیس سپلائی دی جاتی ہے۔
سوئی گیس حکام کے مطابق کیپٹیو پاور بنانے والے کو 150 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جاتی ہے لیکن اس وقت 75 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جا رہی ہےجو دسمبر میں مزید کم ہو کر 50 ایم ایم سی ایف ڈی رہ جائے گی۔ پنجاب میں سی این جی اسٹیشنز مکمل طور پر بند ہیں جبکہ کے پی کے میں سی این جی اسٹیشنز کو گیس دی جا رہی ہے۔ سی این جی سیکٹر کو مجموعی طور پر 40 سے 50 ایم ایم سی ایف ڈی گیس دی جاتی ہے۔ گیس کے ذخائر سالانہ 10 سے 15 فی صد کم ہو رہے ہیں۔
وزارت پٹرولیم کے ذرائع کے مطابق رواں ماہ اکتوبر میں 849 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی درآمد ہو گی۔ نومبرمیں 806 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی درآمد کی جائے گی،جن میں سے 365 ایم ایم سی ایف ڈی لاہور فراہم کی جائے گی جبکہ ماہ دسمبر 10 کارگوز درآمد ہوں گے۔
ذرائع کے مطابق جنوری، فروری اور مارچ کے لیے 875 ایم ایم سی ایف ڈی آر ایل این جی ماہانہ بنیادوں پر درآمد کی جائے گی۔ کھاد فیکٹریوں کو بھی جنوری اور فروری کے دوران گیس نہیں ملے گی، ذرائع کا کہنا ہے کہ دسمبر 2022 اور جنوری اور فروری 2023 میں سرکاری پاور پلانٹس کوگیس نہیں مل سکے گی۔