ایک نیوز :وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے نیب ترمیمی آرڈیننس 2023 عدالت میں جمع کرا دیا ۔
سپریم کورٹ میں عمران خان کی نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر 43ویں سماعت ہوئی۔
وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان کاکہنا تھا کہ نیب کے حالیہ قانون میں نئی ترامیم آرڈیننس کی صورت میں تجویز کر دی گئی ہیں۔نیب ترامیم آرڈیننس کابینہ کی منظوری کے بعد صدر مملکت کے پاس ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصورعلی شاہ کاریمارکس میں کہنا تھا کہ کیا نیب ترامیم نئی ہیں یا ان کا موجودہ کیس سے کوئی تعلق ہے؟جس پر وفاق کے وکیل نے کہا کہ زیر التوا نیب قانون میں ہی مزید ترامیم کی گئی ہیں۔مجوزہ ترامیم سے چئیرمین نیب کے اختیارات میں ردوبدل کیا ہے۔آرڈیننس کی منظوری کے بعد چئیرمین نیب کے ریفرنس ختم کرنے کے لیے عدالت کی اجازت لینا ہو گی۔نیب قانون کے سیکشن 5 سمیت متعدد شقوں میں ترمیم کی جا رہی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہنا ہے کہ حکومت کا کرپشن ملزمان کو نیب کے دائرہ اختیار سے خارج نا کرنے پر ترامیم کرنا خوش آئند ہے۔
وکیل وفاقی حکومت مخدوم علی خان نے دلائل میں کہنا کہ عدالت چاہے تو صدر مملکت کی نیب ترامیم کی منظوری تک کیس ملتوی کر دے۔
چیف جسٹس نے کہا مجوزہ ترامیم کی منظوری کا انتظار کرنا عدالت کے لیے درست اقدام نا ہو گا، کیس کو کافی عرصے سے سن رہے ہیں مزید انتظار نہیں کر سکتے۔اس کیس کے دوران ذاتی طور پر پڑھا کہ کرپشن دنیا کے دوسرے ممالک میں مسئلہ ہے یا نہیں۔معاشرے میں کرپشن سے عام انسان کی نظام عدل تک رسائی میں ناکامی ہوتی ہے۔جس پر وفاق کے وکیل نے کہا کہ
عدالت کو قانون کالعدم قرار دینے کا اختیار بذات خود بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔عدالتی مداخلت اور کرپشن پر بحث پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ایک جریدے کے مطابق امریکہ میں دو سیاسی جماعتیں عدالتوں پر اپنے کنٹرول کے لیے لڑ رہی ہیں۔ عمران خان نے نیب قانون میں 2019 میں پہلی ترمیم کی جو سیاسی انتقام کے لیے تھی۔ عمران خان کی حکومت نے کرپشن ملزمان کو جیل میں کلاس سی دینے کی ترمیم کی۔ترمیم سے اسی عرصے میں مشہور سیاسی شخصیت کو گرفتار کر کے جیل کی کلاس سی میں رکھا گیا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون میں جرم کی نوعیت کو کہاں تبدیل کیا گیا ہے؟
وکیل وفاق مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب قانون میں 2019 میں کی گئی ترمیم 2021 میں آرڈیننس کے ذریعے واپس لی۔اپوزیشن کی ذمہداری پارلیمنٹ کو عبور کر کے ہر سیاسی تنازعے کو عدالت میں حل کرنا نہیں۔جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا نیب ترامیم کا اطلاق ماضی سے ہونے کے نکتے پر کوئی قانونی نظیر موجود ہے؟
وکیل وفاق مخدوم علی خان نے کہا کہ نیب کا حالیہ قانون 2019 سے کی گئی ترامیم کا ہی ارتقاء ہے۔جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ نئی نیب ترامیم میں کیا تبدیلی کی گئی ہے؟
وکیل وفاق مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ حکومت نیب قانون سے کرپشن کو مزید مشکل بنا رہی ہے۔عدالت نے حنیف عباسی بنام عمران خان کیس میں ایمنسٹی اسکیم سے پبلک آفس ہولڈرز کو ملے فائدےکا ذکر کیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حنیف عباسی کیس پبلک فنڈز کے متعلق نہیں بلکہ کاغذات نامزدگی کی تصدیق کا تھا ۔
وکیل وفاق مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ موجودہ حکومت نے عمران دور میں واپس لی گئی ترمیم ہی دوبارہ بحال کیں۔جس پر چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ کیا اب نیب ترامیم کے بعد آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے یا نہیں؟ پلی پارگین اور رضاکارانہ واپسی کے قانون میں ترمیم بھی خوش آئند ہے۔
وکیل وفاق مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ آمدن سے زائد اثاثے بنانا جرم ہے، ختم نہیں ہوا۔جس پر جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ نیب جیسے ادارے جنوبی ایشیا کے کن ممالک میں کام کر رہے ہیں؟
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی بنچ نے کیس کی سماعت 15 مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔