ایک نیوز: الطاف حسین کی مشکلات میں اضافہ،لندن میں ایم کیوایم پاکستان مضبوط ہوگئی۔
تفصیلات کے مطابق متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان)نےاکتوبر 2020 میں لندن ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا۔جس کا آج فیصلہ آیاہے ۔اس مقدمے میں ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے امین الحق، ندیم نصرت، ڈاکٹر فاروق ستار اور وسیم اختر مدعی ہیں ۔ جبکہ ایم کیو ایم لندن کی جانب سے الطاف حسین، اقبال حسین، طارق میر، محمد انور ، افتخار حسین، قاسم علی رضا اور یوریو پراپرٹی ڈولپمنٹ لمیٹڈ دفاع کر رہے ہیں۔
یہ مقدمہ دو مرحلوں پر مشتمل ہے۔ پہلے مرحلے میں یہ طے کیا جانا تھا کہ اصل ایم کیو ایم کون سی ہے۔
لندن ہائی کورٹ کے فیصلے کہ مطابق 2015 کے آئین کو ایم کیو ایم نے پارٹی کے آئین کے طور پر نہیں اپنایا تھا۔ الطاف حسین 23 اگست 2016 کو پارٹی چھوڑ گئے تھے اور کبھی واپس نہیں آئے۔ ڈفینڈنٹ نمبر 1الطاف حسین نے 21 ستمبر یا 14 اکتوبر کو جو جماعت بنائی تھی۔ جس کا نام بھی متحدہ قومی موومنٹ تھا وہ ایک علیحدہ اور نئی جماعت ہے اور ٹرسٹ کی بینیفشری نہیں ہے۔
لندن ہائی کورٹ کے فیصلے میں مزیدکہاگیاہے کہ الطاف حسین نے اگست 2016 میں ایم کیو ایم سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اور وہ یہ بات عدالت کے سامنے بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ(پاکستان) ایم کیو ایم ٹرسٹ کی تمام جائیدادوں اور پراپرٹیوں کی جائز حق دار (بینیفشری) ہے اور ان پراپرٹیوں میں سے ایک پراپرٹی 53 بروکس فیلڈ ایونیو لندن کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم کی بھی حق دار ہے۔ مقدمے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ الطاف حسین نے 22 اگست کو جو تقریر کی تھی جس کے بعد ایک تنازع پیدا ہو گیا تھا اور اگلے روز یعنی 23 اگست کو انہوں نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا تھا جو اب تک لاگو ہے۔
دوسرے مرحلے میں عدالت یہ طے کرے گی۔ ٹرسٹ کے زیرِ انتظام پراپرٹیوں سے متعلق کوئی خلاف قانون کام تو نہیں کیا گیا۔
دوسرے مرحلے میں ایم کیو ایم پاکستان کے وکلاء عدالت سے درخواست کریں گے ۔کہ ٹرسٹ میں شامل موجودہ ٹرسٹیز کے ناموں کو خارج کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ بینیفشری کو یہ حق حاصل ہے۔ وہ موجودہ ٹرسٹیز کے ناموں کو نکال کر نئے نام شامل کریں۔موجودہ ٹرسٹیز میں الطاف حسین، اقبال حسین، طارق میر، محمد انور مرحوم، افتخار حسین، قاسم علی رضا اور یوریو پراپرٹی ڈولپمنٹ لمیٹڈ شامل ہیں۔ان میں سے محمد انور کا انتقال ہو چکا ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سنہ 2000 اور اس کے بعد ایم کیو ایم کے آئین کی شق 9 بی میں الطاف حسین کو قائد تحریک قرار دیا گیا تھا جو کہ ایک اعزازی ٹائیٹل تھا۔ اس شق کے مطابق رابطہ کمیٹی کیلئے لازمی تھا کہ وہ ان سے رہنمائی حاصل کرے۔ لیکن ان کے فیصلوں پر عمل درآمد کی پابند نہیں تھی۔ الطاف حسین کی ہدایات اور فیصلوں پر عمل کرنا رابطہ کمیٹی کا صوابدیدی اختیار تھا۔
ہائی کورٹ آف جسٹس بزنس اینڈ پراپرٹی کورٹس آف انگلینڈ اینڈ ویلز کے آج کے فیصلے پر اپنا ردِعمل دیتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر خالد مقبول صدیقی کاکہناتھاکہ اس فیصلے سے لاکھوں پاؤنڈ کی جائیدادیں ایم کیو ایم پاکستان کی ملکیت بن گئیں۔اس سے ایم کیو ایم کے ان کارکنوں کو فائدہ ہو گا۔ جنہوں نے قربانیاں دی ہیں اور جن کے اہل خانہ مالی مشکلات کا شکار ہیں۔ان پراپرٹیوں سے حاصل ہونی والی آمدنی ایم کیو ایم کے کارکنوں کے خاندانوں کی تعلیم اور صحت پر خرچ کی جائے گی۔ ڈاکٹر عمران فاروق کی بیوہ لندن میں انتہائی مشکل حالات میں رہ رہی ہیں ان کی مددبھی کی جائے گی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے وکیل بیرسٹر نذر محمد کاکہناتھاکہ اس مقدمے میں ایم کیو ایم کے دو آئین بھی آمنے سامنے تھے۔
ایک تو 2016 کا آئین تھا جو 2012 سے کئی ترامیم کے بعد سامنے آیا تھا اور یہی آئین نافذ العمل تھا۔ رابطہ کمیٹی نے اس آئین میں ترامیم کیں اور الطاف حسین نے ان ترامیم کی قانونی حیثیت کو چیلنج کیا تھا۔ لیکن ان ہی ترامیم کے ساتھ اس آئین کو ایم کیو ایم پاکستان نے الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹر کروا دیا تھا۔ پولیٹیکل پارٹیز ایکٹ 2017 کے تحت کسی بھی سیاسی جماعت کا آئین یا ترمیم شدہ آئین الیکشن کمیشن آف پاکستان میں رجسٹر کرانا لازمی ہے۔‘
ایم کیو ایم کے آئین میں یہ ترامیم 31 اگست اور پہلی ستمبر 2016 کو کی گئی تھیں۔
دوسری جانب ایم کیو ایم لندن کے قائد الطاف حسین کاکہناتھاکہ میں عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کروں گا۔اورعدالت کو نئے شواہد فراہم کروںگا اور ایسے لوگوں کو اس مقدمے میں لائیں گے جنھیں اب تک نظر انداز کیا گیا ہے۔