ایک نیوز: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان نے کہا ہے کہ ہماری عدلیہ اسٹبلشمنٹ سے جان چھڑانے کےلیے جدوجہد کررہی ہے، جلد عدلیہ سے اسٹبلشمنٹ کی دخل اندازی کا اختتام ہوگا۔
چیف جسٹس لاہورہائیکورٹ نے راولپنڈی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ جو عدالتی نظام لیٹیگنٹ کنندہ کے گرد گزرتا ہے ، میری رائے میں یہ نظام کمزور شخص کے لئے بنایاگیا ہے ، ہم نے فیصلہ آ ئین اور قانون کے مطابق کرنا ہوتا ہے ، لیٹیگنٹ کے مسائل حل کرنے کے لئے جج صاحبان سے گزارش کی کہ مسائل کے حل نکالیں ۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک کے لیٹیگنٹ کے لئے اہم مسئلہ عدالت میں فیصلوں میں تاخیر ہے ، فیصلہ دیکھنے کے لئے نسلیں نکل جاتی ہے، مقدمات میں تاخیر پڑنے کا سبب گواہان کا نہ آنا ہوتا ہے، مقدمات میں ان افراد کا نام ہوتا ہے جو بیرون ملک ہوتے ہیں ۔
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس ملک شہزاد احمد خان کا کہنا تھا کہ بیرون ملک لوگوں کی جائیداد پر قبضہ ہو جاتے ہیں ، ان تمام مسائل کے حل پر غور کیا، ویڈیو لنک کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کا جائزہ لیا ، اس سب پر ڈیڑہ ماہ کی محنت کی ، آج سے ای کورٹ میں وڈیو بیان ریکارڈ شروع ہوگیا ہے ، لوگوں کو جلد اور سستا انصاف ملے گا ، ای کورٹ کی سہولت پورے پنجاب میں موجود ہوگی، دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک کے جوڈیشل سسٹم کا جائزہ لیا۔
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا مزید کہنا تھا کہ ہم نے فیصلہ قانون اور آئین کے مطابق کرنا ہوتا ہے، ہمارے ہاں مقدمات میں ان لوگوں کو بھی نامزد کردیا جاتاجوملک سے باہر ہوں، ملک سے باہر رہنے والے لوگ اگر مقدمات میں پیش ہوں تو انھیں نوکریوں سے ہاتھ دھونا پڑتا، کمزورطبقے کااہم مسئلہ عدالتوں سے بروقت فیصلے کانہ ہونا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے پاس اکثریت ان لوگوں کی ہے جوکمزور ہیں، مقدمات میں تاخیر کی بڑی وجہ گواہان کابروقت پیش ہوکر گواہی نہ دینا ہے،سب سے پہلے ہم نے مسائل کی نشاہدہی کرنی ہے، کئی مقدمات میں فیصلے ہونے تک دونسلیں گزرجاتی ہیں،مسائل کےحل کےلیے ججز سےگزارش ہے ان کاحل نکالیں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کا خوف رکھیں گے تو اللہ کی مدد حاصل ہوں گی، اپنی ضلعی عدلیہ پر فخر ہے، جوڈیشری بغیرڈر،خوف اورلالچ کے فیصلے کررہی ہے،عدلیہ میں مداخلت کاآغاز مولوی تمیز الدین کے دورسے ہوا، آج ہم نے عدالتی جدوجہدکی وجہ سے مارشل لاء کا راستہ ہمیشہ کےلیے بند کردیا،آج ہم سول حکومت کے ثمرات سے مستفید ہورہے ہیں۔
دوسری جانب راولپنڈی کےسیشن جج عبد الرزاق کا جوڈیشل کمپلیکس میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا کہ انفارمیشن ٹیکنالوجی نے دنیا کی رفتار بڑھا دی ہے، جوڈیشل سسٹم اگر اس رفتار کو قائم نہ رکھ سکا تو انگلیاں اٹھیں گی، اس کو دیکھتے ہوئے پنجاب بھر میں ایک کورٹس قائم کی ، اس کے ذریعہ اخراجات اور وقت بچے گا ، اے ڈی آر سینٹر کے لئے راولپنڈی کو چنا گیا ہے ۔
جوڈیشل کمپلیکس میں تقریب سے لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس مرزا وقاص رؤف نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ اے ڈی آر کا مقصد مقدمات کو کم کرنا ہے، سب سے بڑا مسئلہ زیر التواء مقدمات ہیں، اے ڈی آر کے ذریعہ اس مسئلہ کو کم کر سکتے ہیں ، ڈسٹرکٹ کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک،ہر طرح کا کیس ہمارے پاس آتا ہے، ہماری بدقسمتی ہے کہ ایک پائپ لائن سے چیزیں آگے جاتی ہیں ، کچھ لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ عدالتیں ڈلیور نہیں کر پا رہی ہیں ۔