ٹریفک پولیس کی چالانزکی مد میں ڈیڑھ ارب اکٹھےکرنےکی خبردرست نکلی

ٹریفک پولیس کی چالانزکی مد میں ڈیڑھ ارب اکٹھےکرنےکی خبردرست نکلی
کیپشن: The news of collecting one and a half billion in the form of traffic police challenges came out true

ایک نیوز(فیکٹ چیکر)لاہور ٹریفک پولیس کی جانب سے 2022 میں چالانز کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے اکٹھےکرنےکی خبردرست نکلی۔

لاہور میں ٹریفک پولیس نے 2022ء میں ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر جرمانے کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے اکٹھے کئے، رواں سال جنوری میں 20 کروڑ روپے وصول کیے گئے۔

 ایک ٹوئٹر صارف نے اپنی ٹوئٹ میں یہ دعویٰ کیا کہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں ٹریفک پولیس نے 2022ء میں ٹریفک کی خلاف ورزیوں پر جرمانے کی مد میں ڈیڑھ ارب روپے جمع کیے ہیں۔

ٹوئٹر صارف نے 7 فروری کواپنی ٹوئٹ میں لکھا کہ ”ایک رپورٹ کے مطابق نئے سال کے آغاز میں صرف ایک ماہ کے دوران لاہور کی ٹریفک پولیس نے 4 لاکھ 79 ہزار چالانز کاٹ کر شہریوں سے 20 کروڑ روپے وصول کیے تھے، جبکہ پچھلے برس2022 ء میں ایک سال کے دوران ڈیڑھ ارب روپے صرف لاہور میں ٹریفک چالان کی مد میں وصول کیے گئے تھے۔“

 نیوز  آرٹیکل کے شائع ہونے تک اس ٹوئٹ کو اب تک 1,300 سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔

لاہور کے چیف ٹریفک آفیسر مستنصر فیروز  نےبتایا کہ یہ خبر بالکل درست ہے۔

مستنصر فیروز کی جانب سےفراہم کردہ دستاویز کے مطابق ٹریفک پولیس لاہور نے سال 2022 ء میں 37 لاکھ 41 ہزار  634 چالان ٹکٹس جاری کیے جن سے ڈیڑھ ارب روپے اکٹھے ہوئے۔

شہریوں کو زیادہ تر چالان بغیر ہیلمٹ موٹر سائیکل چلانے پر جاری کیے گئے۔

اس کے علاوہ یکم جنوری سے 8 فروری تک کل 6 لاکھ 10 ہزار 320 جرمانے کیے گئے، جن میں سے ایک بار پھر زیادہ تر جرمانے حفاظتی ہیلمٹ نہ پہننے کی وجہ سے کیے گئے تھے۔ ان جرمانوں سے لاہور ٹریفک پولیس نے مجموعی طور پر 20 کروڑ  روپے وصول کیےہیں۔

چیف ٹریفک آفیسر مستنصر فیروز نےبتایا کہ لاہور میں اس وقت 3 ہزار  373 ٹریفک وارڈنز موجود ہیں۔ ”پولیس نے خود سے یہ ڈیسائیڈ کیا ہوا تھا کہ ایک آفیسر جو ڈیوٹی کرتا ہے، اس کی پرفارمنس کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ ایک دن میں کم سے کم 15 یا 20 چالان کرے اور جوجتنے زیادہ چالان کرے گا وہ اتنا ہی قابل سمجھا جائے گا ۔ “

 ٹریفک پولیس کے تعلقات عامہ کے افسر رانا عارف نے بھی  تصدیق کی کہ ٹریفک جرمانے سے جمع ہونے والی یہ تمام رقم پولیس والوں کی جیبوں میں نہیں بلکہ حکومت پنجاب کے سرکاری خزانے میں جاتی ہے۔