ایک نیوز : پشتون تحفظ موومنٹ کے سرگرم رہنما اور رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو کراچی کی سینٹرل جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔عدالت نے علی وزیر کو ضمانت منظور کرنے کے بعد رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔
محکمہ داخلہ سندھ نے خیبر پختونخوا کے خط کے جواب میں آئی جی جیل خانہ جات کو رہائی کے احکامات جاری کئے۔
علی وزیر کی رہائی کے موقع پر پشتون تحفظ موومنٹ کے کارکن جیل کے باہر پہنچے اور علی وزیر کا پرتپاک استقبال کیا۔
وکیل علی وزیر کے مطابق ایک ہفتے قبل علی وزیر کو کیس میں رہائی ملی تھی۔
جیل حکام کے مطابق علی وزیر کے خیبرپختونخوا سے 4 مقدمات میں ریلیز آرڈر ملے۔ علی وزیر کے کراچی میں 3 مقدمات تھے۔ یادر ہے کہ کراچی میں درج تین مقدمات میں علی وزیر کی ضمانت ہو چکی ہے۔
علی وزیر کے خلاف مجموعی طور پر 19 مقدمات درج تھے جن میں سے چار مقدمات کراچی جب کہ باقی 15 خیبر پختونخوا کے مختلف تھانوں میں درج تھے۔ان میں سے کراچی میں قائم تین مقدمات اور خیبر پختونخوا میں قائم چار مقدمات میں رکنِ اسمبلی کی ضمانت منظور ہو چکی ہے جب کہ 11 دیگر مقدمات میں پشاور ہائی کورٹ نے خیبر پختونخوا پولیس کو ان کی گرفتاری سے روک دیا ہے۔
کراچی میں درج بغاوت کے الزامات کے تحت قائم ایک مقدمے میں علی وزیر بری بھی ہو چکے ہیں۔ کراچی میں ان کے خلاف تھانہ شاہ لطیف ٹاؤن، بن قاسم ٹاؤن، منگھو پیر اور سہراب گوٹھ میں مقدمات قائم ہوئے تھے۔ سہراب گوٹھ میں درج مقدمے میں علی وزیر کو عدم ثبوت کی بنا پر انسداد دہشت گردی کی عدالت بری کر چکی ہے۔
خیبر پختونخوا میں ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں اور دیگر علاقوں میں مقدمات درج کیے گئے تھے۔علی وزیر کے وکیل عبدالقادر خان ایڈووکیٹ نے میڈیا کو بتایا کہ تمام مقدمات میں ایک ہی قسم کے الزامات عائد کیے گئے ہیں جن میں مختلف دفعات شامل ہیں۔ ان میں بغاوت، پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ عوام کو جنگ پر آمادہ کرنا، ملکی سالمیت کے اداروں یعنی فوج کے خلاف نفرت انگیز تقاریر اور انہیں بدنام کرنے کی کوشش، عوام میں فساد برپا کرنے، ہنگامہ آرائی، جرائم کے ارتکاب کے لیے غیر قانونی طور اجتماع اور دیگر جرائم کی دفعات شامل ہیں۔
علی وزیر کو دو سال ایک ماہ قبل دسمبر 2020 میں پشاور سے گرفتار کرکے کراچی پولیس کے حوالے کیا گیا تھا اور وہ اس وقت سے کراچی سینٹرل جیل ہی میں قید ہیں۔
علی وزیر خیبر پخنونخوا میں کچھ عرصے قبل ضم ہونے والے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان سے آزاد حیثیت سے پہلی بار رکن اسمبلی بنے ہیں۔وہ احمد زئی وزیر قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونی ورسٹی سے تعلیم مکمل کی تھی۔
علی وزیر خود کو دائیں بازو کی سیاست پر یقین رکھنے والا سیاست دان قرار دیتے ہیں۔ اپنے سیاسی نظریات اور اسٹیبلشمنٹ کے سیاست میں مبینہ کردار پر کھل کر اظہارِ خیال کرنے پر انہیں تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں علی وزیر کے والد، بھائیوں، چچا، کزن سمیت ان کے خاندان کے 18 افراد مختلف واقعات میں ہلاک ہوچکے ہیں۔