ایک نیوز:قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کے گزشتہ روز کے حکم نامے کو مسترد کردیا ، اور حکم نامے کیخلاف مذمتی قرارداد منظور کرلی۔
چیف جسٹس کے زخود نوٹس کےاختیار سے متعلق مزید ترامیم کا بل بھی منظور جبکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ڈیمز فنڈ قائم کرنے سے متعلق قرارداد بھی منظورکرلی۔
اسپیکرراجہ پرویزاشرف کی زیرصدارت قومی اسمبلی کااجلاس ہوا ، جس میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ کے حکم نامے کیخلاف مذمتی قرارداد اورچیف جسٹس کےازخود نوٹس کےاختیار سے متعلق مزید ترامیم کا بل منظورکر لیا گیا،جس میں ترمیم کےذریعےاپیل کیلئے30 دن کی بجائے60 دن کا وقت دیا گیا۔
ایوان میں آرٹیکل 184/3(چیف جسٹس کےازخود نوٹس کےاختیار)میں مزید ترمیم کا بل پیش کیا گیا،قومی اسمبلی نے آرٹیکل 184/3 (از خود نوٹس کے اختیارات) میں مزید ترمیم کا بل منظور کرلیا۔
قرارداد میں کہا گیا کہ یہ ایوان اختیار سلب کرنے کی سپریم کورٹ آف پاکستان کی جارحانہ کوشش کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں واضح کرتا ہے کہ یہ اختیار سلب کیاجاسکتا اور نہ ہی اس میں مداخلت کی جاسکتی ہے۔
ایوان افسوس کا اظہار کرتاہے کہ 1973 کے آئین کے نفاذ کے 50 سال مکمل ہونے پر گولڈن جوبلی تقریبات کے دوران ریاست کے ایک عضو (Organ of the State) نے آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جو خود آئین کے اندر ایک ناپسندیدہ فعل ہے ۔ آئین میں ریاست کے اختیارات تین اداروں مقننہ (Legislature)، انتظامیہ (Executive) اور عدلیہ (Judiciary)میں منقسم ہیں اور کوئی ادارہ دوسرے کے امور میں مداخلت کا مجاز نہیں ہے۔
یہ ایوان واضح کرتا ہے کہ بجٹ ، مالیاتی بل، اقتصادی معاملات اور وسائل کے اجرا سے متعلق منظوری دینے یا نہ دینے کا تمام تر اختیار پارلیمنٹ کے پاس ہے جیسا کہ آئین میں درج ہے۔ کوئی ادارہ پارلیمنٹ کے اس اختیار کو چھین نہیں سکتا اور نہ ہی معطل یا منسوخ کرسکتا ہے۔ ایسا کرنا آئین پاکستان کے بنیادی تصور کی خلاف ورزی اور دستور کی عمارت ڈھانے کے مترادف ہے۔
یہ ایوان شدید تشویش کا اظہار کرتا ہے کہ پارلیمنٹ کے منظور کردہ سپریم کورٹ (پریکٹس اینڈ پروسیجر ) بل مجریہ 2023 کو وجود میں آنے، آئینی وقانونی عمل کے نتیجے میں تکمیل پانے اور نافذ العمل ہونے سے پہلے ہی ایک متنازعہ ویک طرفہ آٹھ رکنی بینچ میں زیرسماعت لاکر پاکستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ورق کا اضافہ کیاگیا ہے۔ یہ خلاف آئین وقانون روایت نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ منطق اور عدالتی طریقہ کار کے بھی سراسر برعکس ہے۔ یہ عمل بذات خود بلاجواز عجلت کا ثبوت ہے لہذا اسے آئین، قانون اور انصاف کے مروجہ طریقہ کار کے مطابق جائز حکم یا فیصلہ تسلیم نہیں کیاجاسکتا ۔ لہذا اسے مسترد کرتا ہے۔
ایوان وفاقی حکومت کو ہدایت کرتا ہے کہ اس سنگین آئینی خلاف ورزی کا بغور جائزہ لے کر اس کی درستگی کے لئے آئین اور قانون کے مطابق اقدامات کرے ۔
قرارداد نمبر 2:
قومی اسمبلی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے ڈیمز فنڈ قائم کرنے سے متعلق بھی قرار داد منظور کی گئی۔
جس کے مطابق سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالتی روایات سے ماورااور خلاف قانون وضابطہ نئے ڈیمز اور آبی ذخائر کی تعمیر کے لئے فنڈز جمع کرنے کاآغاز کیا تھا اور مورخہ 10 جولائی 2018 کو“ سپریم کورٹ آف پاکستان کا دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیمز فنڈ“ قائم ہوا تھا۔
اخبار کی خبر کے مطابق جنوری 2023 میں چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ کو آگاہ کیاگیا تھا کہ ڈیم فنڈ میں 16.53 ارب روپے موجود ہیں جو اگلی سہہ ماہی میں بڑھ کر 16.98 ارب روپے ہوجائیں گے۔
یہ ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ ڈیم فنڈ میں جمع ہونے والی یہ رقم قومی خزانے میں جمع کرائی جائے اور یہ وسائل 2022 کے تباہ کن سیلاب کے متاثرین کی مدداور بحالی کے لئے بروئے کار لائے جائیں۔