ایک نیوز: صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو لکھے گئے خط میں انتخابات کی تاریخ تجویز کرنے پر آئینی اور قانونی ماہرین کی رائے منقسم دکھائی دیتی ہے۔
کچھ ماہرین نے انتخابات کی تاریخ کو صدر کا صوابدیدی اختیار قرار دیا ہے جبکہ دیگر کا ماننا ہے کہ انتخابات کی تاریخ دینا الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
معروف قانون بیرسٹر اسد رحیم کاکہنا تھاکہ اس حوالے سے کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئیں کہ صدر مملکت، انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں یا نہیں، وہ چند اختیارات جو صدر پاکستان کی اپنی صوابدید ہیں، ان میں انتخابات کی تاریخ دینا بھی شامل ہے۔آج بھی صدر پاکستان کی صوابدید ہے کہ وہ وفاقی سطح پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں، صدر عارف علوی نے بالکل درست کیا کہ الیکشن کمیشن سے مشاورتی کردار کو پورا کرتے ہوئے انہوں نے کئی بار الیکشن کمیشن اور چیف الیکشن کمشنر کو اس عمل میں شامل کیا ہے، اس مشاورت کے نتیجے میں اعلان ہونا چاہیے۔
اسد رحیم نے یاد دہانی کرائی کہ پچھلے صدر پاکستان ممنون حسین نے بھی الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد قومی سطح پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان کیا تھا، امید ہے کہ اس بار بھی وہی عمل ہو گا اور الیکشن کمیشن آف پاکستان اپنا کردار پورے کرے گا۔اگر الیکشن کمیشن یہ سمجھتا ہے کہ کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر وہ بطور ادارہ کسی ایک تاریخ پر اتفاق نہیں کر پارہے تو اس صورت میں بھی صدر پاکستان اپنے صوابدیدی اختیار کو استعمال کرتے ہوئے تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں۔
اسد رحیم کا مزید کہنا تھاکہ عدالت عظمیٰ نے وہی الفاظ استعمال کیے ہیں جو آئین میں درج ہیں کہ الیکشن کمیشن کا یہ فرض ہے کہ وہ آزدانہ اور منصفانہ انتخابات کرائے، ہم آئین کی دفعات کو الگ الگ نہیں پڑھ سکتے بلکہ پوری دستاویز کو اکٹھا پڑھا جاتا ہے اور یہ ہمارے جمہوری نظام کا مرکز ہے کہ انتخابات کو 90 دن کی آئینی مدت کے اندر ہر حال میں ہونا چاہیے، یہ ہمارے الیکٹورل عمل، پارلیمانی نظام اور وفاق کی بنیاد ہے اور اس پر کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہیے۔
سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر نے اسد رحیم کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ انتخابات کی تاریخ دینا صدر مملکت کے اختیار میں نہیں آتا، جب الیکشن کمیشن انتخابات کی تاریخ کا فیصلہ کر لیتا ہے تو وہ صدر کے نام سے ایک تاریخ کا اعلان کر دیتے ہیں، صدر کا صرف نام استعمال ہوتا ہے۔ پاکستان میں پہلے گورنر جنرل اور صدر مملکت بھی سربراہان مملکت رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی بھی ایسی کوئی تجویز پیش نہیں کی اور ایسا پہلی بار ہوا ہے، صدر نے اپنے قانونی مشیروں کے کہنے پر ایسا کردیا ہے لیکن صدر کا یہ کام ہی نہیں ہے کہ وہ اس طرح کے معاملات میں خود کو الجھائیں۔
90 دن میں انتخابات کے انعقاد کی قدغن کے حوالے سے سوال پر ماہر قانون نے کہا کہ اگر یہ پتا چل جائے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کسی سیاسی دھڑے سے مل گیا ہے اور جان بوجھ کر انتخابات ملتوی کر رہا ہے اور اس کے شواہد صدر کے سامنے آجائیں تو صدر مملکت معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیج سکتے ہیں اور پھر اگر سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس جان بوجھ کر انتخابات ملتوی کرنے کا ثبوت موجود ہو تو چیف الیکشن کمشنر کے ساتھ ساتھ کمیشن کے اراکین کو بھی نکالا جا سکتا ہے لیکن اگر اس طرح کے شواہد سامنے نہیں آتے تو پھر صدر کوئی زبردستی نہیں کر سکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ صدر مملکت کو اس حوالے سے گمراہ کیا جا رہا ہے اور ان کے آئینی مشیروں کو بھی آئین کا صحیح ادراک نہیں ہے، شاید انہوں نے اس حوالے سے کام نہیں کیا اور سپریم کورٹ بھی یہ غلطی کر چکی ہے جہاں انہوں نے 14 مئی کی تاریخ دے دی تھی اور انہوں نے اسی لیے عملدرآمد نہیں کرایا کیونکہ انہیں اندازہ ہو گیا تھا کہ ہم ایک غلط چیز پر کیسے عملدرآمد کرا سکتے ہیں۔
واضح رہے کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے الیکشن کمیشن کو تجویز دی ہے کہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر عام انتخابات پیر 6 نومبر کو ہونے چاہئیں۔
چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کو خط میں صدر مملکت نے انتخابات کی تاریخ تجویز کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مملکت نے 9 اگست کو وزیراعظم کے مشورے پر قومی اسمبلی تحلیل کی لہٰذا آئین کے آرٹیکل 48 (5) کے تحت صدر کا اختیار ہے کہ عام انتخابات کے انعقاد کے لیے، اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ سے 90 دنوں کے اندر تاریخ مقرر کی جائے۔
صدر مملکت نے کہا کہ آرٹیکل 48 (5) کے مطابق قومی اسمبلی کے لیے عام انتخابات قومی اسمبلی کی تحلیل کی تاریخ کے 89ویں دن یعنی پیر 6 نومبر 2023 کو ہونے چاہئیں۔