ایک نیوز: آن لائن خریداری اور تجارت میں سہولت فراہم کرنے والی امریکی کمپنی 'ویزا' کی ریسرچ کے مطابق 91 فیصد پاکستانی صارفین آن لائن مجرمانہ سرگرمیوں کے بارے میں انتباہی علامات کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو انہیں دھوکہ دہی کے بڑے خطرے سے دوچار کرتی ہیں۔
سان فرانسسکو، کیلی فورنیا میں ہیڈ کوارٹر رکھنے والی ویزا انکارپوریشن دنیا بھر میں زیادہ تر ڈیبٹ، کریڈٹ اور پری پیڈ کارڈز کے ذریعے الیکٹرانک فنڈز کی منتقلی کو قابل بناتا ہے۔
یہ ادارہ سالانہ ریسرچ کا انعقاد کرتا ہے تاکہ صارفین کی بیداری میں اضافہ ہو اور آن لائن مالیاتی لین دین کو ترجیح دینے والے لوگوں کی حفاظت کو درپیش خطرات سے نمٹا جائے۔
ویک فیلڈ ریسرچ کی جانب سے وسطی اور مشرقی یورپ، مشرق وسطیٰ اور افریقہ (سی ای ایم ای اے) کے ممالک میں کیے گئے سالانہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پاکستان میں آن لائن مالیاتی سرگرمیوں میں ملوث 52 فیصد لوگ کم از کم ایک بار اس اسکینڈل کا شکار ہو چکے ہیں، جو عالمی اوسط سے ہم آہنگ ہے۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ "اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ 21 فیصد متاثرین کو متعدد بار دھوکہ دیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں عالمی اوسط 15 فیصد ہے۔"
56 فیصد جواب دہندگان کے دعویٰ کے باوجود کہ وہ آن لائن اور فون فریب دہندگان سے بچنے کے لیے کافی سمجھ بوجھ رکھتے تھے، اس تحقیق میں بتایا گیا کہ دس میں سے نو یا تقریباً 91 فیصد ان انتباہی علامات کو نظر انداز کر سکتے ہیں جو آن لائن مجرمانہ سرگرمیوں کا پتا دیتی ہیں۔
ویزا میں شمالی افریقہ، لیونٹ اور پاکستان (این اے ایل پی) کی سینئر نائب صدر اور گروپ کنٹری مینیجر لیلیٰ سرہان نے کہا، "آج کی ڈیجیٹل-فرسٹ دنیا میں فریب نفاست کے ساتھ تیار ہو رہے ہیں جن میں مجرمان غیر مشکوک صارفین کو دھوکہ دینے کے لیے نئے طریقے استعمال کر رہے ہیں۔ چاہے یہ کسٹمز میں رکھا ہوا پارسل ہو، ایک اسٹریمنگ سبسکرپشن جس کی میعاد ختم ہونے کا دعویٰ کیا گیا ہو، یا کسی پسندیدہ برانڈ کے مفت واؤچر، فریب دہندگان اپنے متاثرین کو دھوکہ دینے کے لیے انتہائی قائل کرنے والے اور پرکشش حربے اپنا رہے ہیں۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "ڈیجیٹل ادائیگیوں میں تیزی سے ترقی کی بنا پر اب یہ پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہے کہ پاکستان میں صارفین دھوکہ دہی کی زبان کو سمجھیں اور انتہائی احتیاط سے کام لیں۔"
مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ جو خود کو باعلم اور باشعور سمجھتے ہیں بعض اوقات اس سے بھی زیادہ خطرے کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ جعلی اعتماد کسی کو جعلی لنک پر کلک کرنے یا فریب پر مبنی پیشکش کا جواب دینے پر مجبور کر سکتا ہے۔
اگرچہ ان میں سے بہت سے جواب دہندگان نے اپنی چوکسی اور احتیاط پسندی کے بارے میں پراعتماد محسوس کیا لیکن ان میں سے نصف سے زیادہ (53 فیصد) نے کہا کہ وہ فکر مند ہیں کہ ان کے دوست یا خاندان کسی آن لائن شاپنگ سائٹ سے مفت گفٹ کارڈ یا پروڈکٹ کی پیشکش کرنے والے فریبی ای میل کا شکار ہو سکتے ہیں۔
مطالعہ کے مطابق تقریباً 26 فیصد پاکستانی جواب دہندگان نے یہ بھی کہا کہ وہ بچوں یا نابالغوں کے ساتھ ساتھ ریٹائرڈ لوگوں کے آن لائن فریب کا شکار بارے میں فکرمند ہیں۔
آرڈرز، پروڈکٹ آفرز، یا فیڈ بیک پر مشتمل نوٹسز کے علاوہ لوگ پاس ورڈ کی درخواستوں پر سب سے زیادہ شکوک کا شکار ہوتے ہیں۔
کم مشتبہ قسم کے پیغامات میں ڈیلیوری یا شپنگ کے حوالے سے اپ ڈیٹس شامل ہیں جن کو صرف 46 فیصد افراد شک کے تین سرفہرست ذرائع میں شمار کرتے ہیں جبکہ عالمی سطح پر یہ شرح 42 فیصد ہے۔
اسی طرح وہ کسی فروخت یا نئی مصنوعات کی پیشکش یا حالیہ تجربے پر تاثرات فراہم کرنے کی دعوت کے بارے میں کی گئی مارکیٹنگ کے حوالے سے کم محتاط تھے حالانکہ یہ تمام طریقے فریب دہندگان نے استعمال کیے تھے۔
عالمی اوسط کی طرح صرف 57 فیصد نے کہا کہ انہوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ ایک درست ای میل ایڈریس سے کوئی ای میل بھیجی جائے جبکہ 55 فیصد نے نوٹ کیا کہ وہ اس بات کا پتہ لگائیں گے کہ آیا پیغام کے ساتھ کمپنی کا نام یا لوگو منسلک ہے۔
سٹے سیکیور اسٹڈی نے اس زبان میں مروجہ نمونوں کی بھی نشاندہی کی جو سب سے زیادہ فریب دہندگان سے وابستہ ہیں - اور یہ کہ سروے شدہ ممالک میں جواب دہندگان کتنے کمزور نکلے۔
سائبر مجرمان اکثر لوگوں کو عمل کرنے پر رضامند کرنے کے لیے عجلت کا مظاہرہ کرتے ہیں جیسے کسی لنک پر کلک کرنا یا پیغام بھیجنے والے کو جواب دینا۔ عالمی سطح پر 40 فیصد کے مقابلے میں 41 فیصد جواب دہندگان سیکیورٹی کے خطرے سے متعلق پیغامات کا شکار ہوتے ہیں جیسے کہ چوری شدہ پاس ورڈ یا ڈیٹا کی خلاف ورزی جبکہ حکومتی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے نوٹس پاکستان میں صرف 33 فیصد کو دھوکہ دے سکتا ہے۔
1990 کے عشرے کے اواخر اور 2010 کے عشرے کے اوائل کے درمیان پیدا ہونے والے افراد حکومت کی طرف سے ملنے والے نوٹس کے بجائے کسی چیز کی پیشکش پر عمل کرنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔
مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ صارفین فریب دہندگان کی زبان پر کلک کرنے اور اسے سمجھنے سے پہلے چند اضافی لمحے نکال کر خود کو بہتر طریقے سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
لوگوں کو یہ بھی مشورہ دیا گیا کہ وہ دھوکہ دہی سے بچنے کے لیے اپنی ذاتی اور مالی معلومات اپنی ذات تک محدود رکھیں۔