بھارت میں گھروں میں کام کرنے والوں کو خوف سے نام تبدیل کرنا پڑتے ہیں

بھارت میں گھروں میں کام کرنے والوں کو خوف سے نام تبدیل کرنا پڑتے ہیں

ایک نیوز نیوز: بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوری اورسیکولر ریاست ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، لیکن ملک میں اقلیتوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ یہاں تک کہ گھروں میں کام کرنے والوں کو نام تبدیل کرنا پڑتے ہیں، تاکہ ان کی اصلیت ظاہر نہ ہو اور وہ کام سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔

ڈیڑھ ارب کی آبادی والے ملک میں مسلمانوں کی آبادی 15 فی صد ہے، اور گھروں میں کام کرنے والوں کے تعداد نامعلوم ہے۔

انٹرنیشنل لیبرآرگنائزیشن کے مطابق سرکاری طور پرتو گھروں میں کام کرنے والوں کی تعداد 50 لاکھ بتائی جاتی ہے، لیکن بھارت میں 2 کروڑ سے 8 کروڑ افراد گھروں میں کام کرتے ہیں۔

ایک اور رپورٹ کے مطابق بھارت میں ہر 10 میں سے 9 مسلمان ورکرزغیررسمی معیشت کے ذریعے اپنی روزی کماتے ہیں۔ 2020 کی انسٹیٹیوٹ آف سوشل سٹڈیز ٹرسٹ اور وٹ ورکس ٹو ایڈوانس وومن اینڈ گرلز ان اکانومی کی سٹڈی میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں غیر رسمی معیشت سے دوسرے مذاہب کی خواتین کی نسبت زیادہ مسلمان خواتین وابستہ ہیں۔

بھارت میں ڈومیسٹک ورکرز کو نسلی بنیاد پر بہت زیادہ امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مالک اپنے ملازمین کو کچن، واش روم، لفٹ اور عبادت کی جگہ استعمال نہیں کرنے دیتے۔ اور تو اور ملازمین کےلئے کھانے کے برتن بھی علیٰحدہ ہوتے ہیں۔

دہلی میں شہری محلہ کام گر یونین کی جنرل سیکرٹری انیتا کپور کا کہنا ہے مسلمان ورکرز کو اپنے مذہب کی شناخت پر اس سے بھی بدتر سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ متعدد مسلمان ورکرز کو جاب حاصل کرنے اورامتیازی سلوک سے بچنے کےلئے اپنا نام اور شناخت چھپانا پڑتی ہے۔ اور نام صرف ورکرکو نہیں بدلنا پڑتا، بلکہ اس کے ساتھ مالک کے گھر جانے والے بچوں اورخاوندوں کو بھی بدلنا پڑتا ہے۔ اس طرح پوری فیملی کو اس آزمائش سے گذرنا پڑتا ہے۔

انیتا کپور کا کہنا تھا کہ کئی سالوں سے مسلمانوں نے اپنے بچوں کے نام ہندووں جیسے رکھنا شروع کر دیئے ہیں، تاکہ انہیں امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ وہ اپنے بچوں کا نام ایسا رکھتے ہیں جو دونوں مذاہب کے لوگ رکھتے ہیں جیسا کہ حینا، یا اپنے بچوں کے دو نام رکھتے ہیں، ایک کاغذات کےلئے اور دوسرا کام کاج کےلئے۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ بعض اوقات تو مالک اپنے ملازم کا نام تبدیل کر دیتے ہیں، اور کوئی ایسا نام رکھتے ہیں جو مضحکہ خیز ہو۔   

مسلمان خواتین کی ورک فورس میں نمائندگی بڑھانے کےلئے کام کرنے والی آرگنائزئشن لیڈ بائی فاونڈیشن کی رپورٹ کے مطابق ایک ہندو خاتون کا برابر کی تعلیم یافتہ مسلم خاتون سے غیر رسمی شعبہ میں جاب حاصل کرنے کا چانس دوگنا ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھرتی کے عمل میں مسلمان خواتین کو براہ راست تعصب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

نیودہلی میں ملازم بھرتی کرنے والی ایجنسی کے سربراہ ششی چوہدری کا کہنا ہے کہ اس کے کلائنٹس میں سے صرف ایک نے مسلمان ورکر کو اپنے گھر میں کام کرنے کےلئے ملازمت دی۔ 

انہوں نے کہا بہت زیادہ مسلمان لڑکے اور لڑکیاں مجھے جاب کےلئے فون کرتے ہیں، لیکن میں کیا کر سکتا ہوں۔ کوئی انہیں ملازمت نہیں دینا چاہتا۔ میں بہت بے بس محسوس کرتا ہوں۔ بعض اوقات مجھے اس پر رونا آتا ہے۔

نیودہلی کے ایک شہری پری جٹ پانڈے کا کہنا تھا کہ وہ کسی مسلمان کو اس لئے ملازمت نہیں دیتا کیونکہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ کوئی مسلمان شخص گھر کی عبادت گاہ کے آس پاس آئے۔ یہ عبادت گاہ کے تقدس کی بات ہے۔ غیرمذہب کا شخص دوسرے مذہب کی رسومات کے بارے میں نہیں جانتا اور وہ ہمارے مذہب کے عقائد کے بارے میں نہیں جانتا۔