دیکھا جائے تو سیا حت سے متعلق یہ تمام گولز کسی بھی ملک کی مستحکم معشیت کیلئے بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں اور انفردیت سے اجتماعیت تک اس پیشہ سے وابستہ افراد کے لئے خوشحالی کا ذریعہ ، اس سال پاکستا ن میں بھی عالمی یوم سیا حت روایتی انداز میں منایا گیالیکن ان سب میں سے اپنی نو عیت کی نمایاں اور منفرد تقریب آزا د جمو ں کشمیر کے ضلع میر پور خاص کی تحصیل ڈڈیال کے رام کوٹ قلعہ میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں شمولیت کے لئے سیا حت کے ذاتی مشاہدات اور تجربات میرے جیسے کئی لکھاریوں کو اکسانے کے لئے کافی ہیں اس ضمن میں پاکستان فڈریشن آف کا لمسٹ ٹورازم ڈیپار نمنٹ کے مشترکہ تعاون سے ہمیشہ ہی پاکستان میں سیا حت کے فروغ کے لئے مصروف عمل رہی ہے 26ستمبر کو آزاد جمو ں کشمیر حکومت کی جانب سے دعوت پر لاہور اور اسلام آبادکے 40کے قریب سنیئر ممبران صحافی اورنیوز ا ینکرز جن میں برادر علی احمد ڈھلوں، محسن گورایہ فیضل درانی،صابر بخاری، خالد گرد یزی اور ملک سیلمان سمیت دیگر بھی تھے پر مشتمل وفد روانہ ہوا جہاں کشمیری بھا ئیوں نے روایتی میزبانی کی، اے سی ڈڈیال سردار ذیشان نثارنے پر تکلف عشایہ دیا جبکہ ڈڈیال پریس کلب اورشہر کی نمایاں شخصیت چوہدری امجد کی جانب سے ناشتہ اور ظہرانہ دیا گیا۔
اس مو قع پر آزاد جمو ں کشمیر کے وزیر کے برائے جنگلات وفشر ی رانا جاوید نے ڈڈیال سے نکلنے والی سینکروں کاروں پر مشتمل کار ریلی کی قیا دت کی اور رام کوٹ قلعہ میں منعقد ہ سیف الملوک ادبی و موسیقی فیسٹیول کی صدارت کی۔
سیاحت کے فروغ کے حوالے سے آزاد جمو ں کشمیر حکومت کی یہ تقریب اور انداز اس لئے منفرد تھا کہ اسے دریا ئے نیلم اور منگلہ جھیل کے سنگم پر واقع شہر ڈڈیال سے قریبا 20کلو میٹر دورپہاڑی جزیرہ کی چوٹی پر قائم رام کوٹ قلعہ کو ایکسپلور کر نے کی خاطر ترتیب دیا گیا تھا اس دلفریب سیاحتی مقام کو قریب سے دیکھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ یہ جگہ پاکستان کے چند خاص سیاحتی عجوبوں میں سے ایک عجوبہ ہے اور جس تک پہنچنے کیلئے کو ئی زمینی راستہ نہیں ہے۔زمین سے قریباََ سات کلو میٹر کشتی کا سفر کر کے پہنچا جا سکتا ہے سر سبز وشاداب پہاڑی کی بلندی پر قائم رام کوٹ قلعہ چاروں اطراف سے پانی سے گھرا ہوا ہے منگلہ جھیل میں بہت سے ایسے چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ لاہور اور اسلام آباد سے آئے تمام صحافی دوست میری طرح اس خوبصورت سیاحتی مقام سے اس سے قبل لا علم تھے او ر غالباََ کشمیر کے باسیؤں کے سوا یہ حال سب پاکستانیوں کا ہے، اور اس کی وجہ پاکستا ن کے سیاحتی مقامات کی طرف عدم توجہی اور صحیح معنوں میں ان کے فروغ کرنے کی غیر سنجیدہ پالیسیاں ہیں لیکن یہاں پر آزاد جموں کشمیر حکومت کا یہ قدم قابل تحسین ہے کہ انہوں نے 1600 سے قائم شدہ گمنام رام کوٹ قعلہ کے تاریخی ورثہ کو نہ صرف پاکستان بلکہ بین الاقوامی سطح پر میڈیا پرسن کے ذریعے متعارف کروانے کی کوشش کی ۔
ان آبی اور پہاڑی وادیوں کی سیر کے بعد تمام سیاح دوستوں کی رائے تھی کہ اگر منگلہ جھیل /ڈیم سے متصل چھوٹے چھوٹے جزیروں پر ترکی،آسڑیلیا،سویئٹززلینڈاور دیگر ایسے کئی ممالک طرز کی کمرشل فیریز اور چئیر لفٹس چلائی جایئں تو نہ صرف اس سے مقامی لوگوں کی نقل و حرکت آسان ہو گی اور روزگار میں اضافہ ہو گا بلکہ پاکستانی اور بین الاقوامی سیاحوں کوسیاحت کے لئے کھینچا جا سکتا ہے اور ملکی معشیت کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔
اس وقت اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو کی جانب سے پاکستان میں موجود چھ تاریخی مقامات جن میں موہنجوداڑو،ٹیکسلہ،تخت بھائی(بدھ یادگار)،لاہور کا شاہی قلعہ،شالیمار باغ،ٹھٹھہ کا مکلی قبرستان اور جہلم کا قلعہ روہتاس شامل ہیں کو عالمی تاریخی ورثہ قرار دیا گیا ہے جبکہ 2004کی وفاقی وزارت سیاحت نے مزید 26 پاکستانی تاریخ مقامات کو یونیسکو کی عالمی ورثہ کی فہرست میں شامل کرنے کے لئے سفارشات مرتب کیں اور2016میں انکی درجہ بندی کی گئی اور یہ سفارشات ابھی تک اقوام متحدہ کی جانب سے منظوری کی منتظر ہیں اور اگر ان مقامات کو بھی اقوام متحدہ عالمی ورثہ قرار دے دیتا ہے تو یقینی طور پر سیاحت کو مزید فروغ ملے گا۔
سیاحت ایک انڈسٹری ہے اور ملک کی معشیت میں اس کا کرداربہت اہمیت رکھتا ہے۔ 2017 میں ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کے مجموعی جی ڈی پی کا 2.8میں سیر و سیاحت کی شراکت داری تھی جو کہ تین سوانتیس ملین امریکی ڈالر اور پاکستانی پنتالیس ارب کے قریب ہے اور اسی رپورٹ کی چونکا دینے والی خبر یہ کی 2025 تک یہ مجموعی جی ڈی پی میں بڑھ کر9.5 بلین امریکی ڈالر یعنی ایک کھرب بیالیس ارب کے قریب ہو جائے گا جو کہ پاکستان میں سیاحتی انڈسٹری کے روشن مستقبل کا پیش خیمہ ہے لیکن کورونا وائرس کی بنا پر بین الاقوامی سطح پر سیاحت کی صنعت کو شدید نقصان پہنچا ہے اور نئے چیلنج درپیش ہیں (UNWTO)کے حالیہ سروے کے مطابق دنیا میں 2020میں 80%تک سیاحوں کی کمی واقع ہو سکتی ہے جو کہ سیاحت سے وابستہ افراد کے لئے بہت بڑے جھٹکے سے کم نہیں۔
کسی بھی ملک میں سیاحت روزگار پیداکرنے کا ایک بہت مناسب ذریعہ ہوتا ہے دنیا کے 196میں سے 44 ممالک ایسے ہیں جو اپنی کل ملازمتوں کا 15%فراہم کرتے ہیں پاکستان میں ہر دو سیاحوں کے آنے سے دو ملازمتیں پیدا ہوتی ہیں یعنی اوسطا سو سیاح آنے پر ایک سو چون لوگوں کو روزگار فراہم ہوتا ہے۔حالیہ تناظر کے حوالے سے پاکستانی سیاحت پہلے ہی دہشت گردی کی نحوست کے خاتمہ کے ڈیڑھ دہائی کے بعد اللہ اللہ کر کے بحال ہوئی ہے لیکن اب اس پر کورونا وبا نے سب نظام دھرم بھرم کر دیا۔
پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جو تاریخی ثقافتی سیاحتی ورثوں سے مالا مال ہے اور بیک وقت کئی موسموں کے رنگ رکھتا ہےلیکن صیح معنوں میں سیاحت کو متعارف کروانے اور کمائی کرنے میں بہت پیچھے ہے سیاحت کوبھر پور فروغ دینے اور ماضی کی طرح دنیا بھر سے سیاحوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لیئے پاکستان کو دنیا کے سب سے زیادہ سیر کیئے جانے والے ممالک کو رول ماڈل بنانا ہو گا اور وزارت سیاحت کو تعلیم اور صحت جیسے ٹاپ ایجنڈا میں شامل کرنا چاہیے کیونکہ سیاحت ہی ایسا ذریعہ ہے جس سے دنیا میں سوفٹ امیج پیدا کیا جاتا ہے۔
دنیا میں فرانس سیاحت کے حوالے سے پہلے نمبر پرہے جہاں 2018میں 90ملین یعنی نو کروڑ سیاح سیر کی غرض سے گئے اس کے بعد چین اور پھر امریکہ۔سوال یہ ہے کہ ہماری حکومتیں کب اس اہل ہو سکیں گی کہ پاکستان کو سیاحت کے حوالے سے ٹاپ ٹین ممالک میں شامل کیا جا سکے؟