ویب ڈیسک: برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے وزیر داخلہ کو برطرف کردیا۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق برطانوی وزیراعظم رشی سونک نے اپنی کابینہ میں بطور وزیر داخلہ ذمہ داریاں انجام دینے والی سویلا بریورمین کو وزارت سے برطرف کردیا ہے۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہےکہ برطانوی وزیر داخلہ کی برطرفی کابینہ میں بڑے ردو بدل کا آغاز ہے جب کہ سویلا کو ملک میں فلسطینیوں کے حق میں ہونے والے مارچ سے نمٹنے کی حکمت عملی پر تنقید کا سامنا تھا۔
رپورٹس کے مطابق وزیراعظم رشی سونک نے سویلا کو فوری طور پر عہدہ چھوڑنے کا کہا جسے انہوں نے قبول کرلیا۔
غیر ملکی میڈیا کا کہنا ہےکہ وزیر خارجہ جیمز کلیوری کو نیا وزیر داخلہ بنائے جانے کا امکان ہے۔
رپورٹس کے مطابق برطانوی وزیراعظم کی جانب سے کابینہ میں اکھاڑ پچھاڑ کے آغاز کے ساتھ ہی سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو بھی ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ میں داخل ہوتے دیکھا گیا ہے جس کے بعد ان کی حکومت میں واپسی کی خبریں زیر گردش ہیں۔
رپورٹس کے مطابق رشی سونک کی جانب سے کابینہ میں بڑے پیمانے پر ردو بدل کیے جانے کا امکان ہے جس میں چند وزرا کو ہٹا کر اتحادیوں کو کابینہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کی حیران کن طور پر سیاست میں واپسی ہوگئی اور انھیں ملک کا نیا وزیر خارجہ مقرر کردیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانوی وزیر داخلہ بھارتی نژاد سویلا بریورمین کی برطرفی کے فوری بعد وزیراعظم رشی سوناک نے اپنی کابینہ میں ایک اور بڑی تبدیلی کا اعلان کردیا۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کو وزیر خارجہ مقرر کر دیا گیا۔ کیمرون 2010 سے 2016 تک برطانیہ کے وزیراعظم رہے تھے تاہم برطانیہ کے متنازع بریگزٹ ووٹنگ پر استعفیٰ دیدیا تھا۔
جس کے بعد ڈیوڈ کیمرون برطانوی سیاست میں غیر متحرک ہوگئے تھے لیکن آج جب وزیر داخلہ سویلا بریورمین کو برطرف کیا گیا تو حیران کن طور پر ڈیوڈ کیمرون کو برطانوی وزیراعظم کے دفتر جاتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس سے یہ قیاس آرائیاں ہونے لگیں کہ شاید وزارت داخلہ کا قلمدان سویلا بریورمین سے لے کر ڈیوڈ کیمرون کو دیا جائے گا تاہم اس عہدے کے لیے سیکرٹری خارجہ جیمز کلیورلی کے نام کا اعلان کردیا گیا۔
بعد ازاں برطانوی وزیراعظم کے دفتر سے اعلان کیا گیا کہ سابق وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون کو وزیر برائے خارجہ، کامن ویلتھ۔ اور ڈیلوپمنٹ افیئرز مقرر کردیا گیا۔
خیال رہے کہ برطانوی وزیراعظم رشی سوناک نے اپنی کابینہ میں بڑی تبدیلیوں کا کئی بار عندیہ دے چکے ہیں تاکہ وہ اپنی حکمت عملی اور پالیسی کو بہتر طریقے سے نافذ کرسکیں۔