ایک نیوز نیوز: دنیا بھر میں سائبرجرائم میں کتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ میک ایفی McAfee کی رپورٹ کے مطابق، 2014میں سائبرجرائم کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کو 445 ارب ڈالر کا چونا لگا تھا۔ جو 2025 میں 10.5 ٹریلین ڈالر تک پہنچ جائے گا۔
یادرہے10.5 ٹریلین ڈالر کتنی بڑی رقم ہوتی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگانا آسان ہے کہ امریکہ اور چین کے علاوہ کسی بھی ملک کی اقتصادیات 10.5 ٹریلین ڈالرسے زیادہ کی نہیں۔
سال 2022تک سائبر جرائم اور بھی سنگین صورت اختیار کرچکے ہیں۔ میک ایفی نے سینٹر فار اسٹرٹیجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ساتھ اس ایشو پر ریسرچ کرنے کے بعد یہ رپورٹ دی تھی کہ 2018 تک سائبر جرائم کی وجہ سے دنیا کو 600 ارب ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ کتنی بڑی رقم ہے، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ دنیا کے 25 ملکوں کی جی ڈی پی ہی 600 ارب ڈالر یا اس سے زیادہ ہے۔ ایک سال بعد 2020 میں میک ایفی نے یہ چونکانے والی رپورٹ دی کہ سائبر جرائم کی وجہ سے عالمی اقتصادیات کو ایک ٹریلین یعنی 10 کھرب یا اس سے زیادہ کا نقصان ہو رہا ہے۔
اس اندیشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ 2025 تک سائبر جرائم میں حیرت انگیز اضافہ ہو جائے گا۔ اس وقت تک یہ جرائم عالمی اقتصادیات کو سالانہ 10.5 ٹریلین ڈالر چونا لگانے لگیں گے۔
سائبر کرائم ہے کیا ؟
سائبر کرائم یا سائبر جرم وہ جرم ہے جو کمپیوٹریا کمپیوٹر نیٹ ورک کی مدد سے کیا جاتا ہے۔ یہ جرم کرنے والا ڈیسک ٹاپ،لیپ ٹاپ،ٹیب،موبائل یا کسی اور طریقے سے اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔
سائبر ڈکیتی کے طریقے
موبائل پر کوئی انجان لنک آیا، اسے موبائل چلانے ولے نے کلک کیا اور سمجھیں وہ سائبر جرائم پیشہ کی گرفت میں آیا۔ موبائل پر انجان میسیج پڑھنا یا کوئی اَیپ ڈاؤن لوڈ کرنا بھی سائبر جرائم پیشہ کو سائبرکرائم میں معاون بنتا ہے۔
پاس ورڈ اور میل آئی ڈیز کی حفاظت
مالیاتی ادارے اور بنکوں کی جانب سے اکثرمنع کیا جاتا ہے کہ او ٹی پی( ون ٹائم پاس ورڈ) شیئر نہ کریں۔ اسے شیئر کرنے کا مطلب اپنے بینک تک سائبر جرائم پیشہ کورسائی دینا ہے۔
لوگوں کے پی آئی این (PIN) اور ای میل آئی ڈی بینک اور موبائل فون سے جڑے ہوئے ہیں، چنانچہ اپنا پن کوڈ انجان لوگوں کو بتانا بھی سائبر کرائم کا شکار بننے کے لیے کافی ہے۔
کئی بارای-میل سے سائبر جرائم پیشہ رابطہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اس لیے بہتریہی ہے کہ انجان ای-میل کھولنے سے گریز کیا جائے۔
فیک نمائندہ کالز
کئی بار سائبر جرائم پیشہ اپنے بن کر فون کرتے ہیں یا وہ بتاتے ہیں کہ کسی بینک سے بول رہے ہیں اور تفصیل مانگتے ہیں۔ تفصیل دینے کا مطلب ٹھگی کے لیے تیار رہنا ہے۔ کئی بار سائبر جرائم پیشہ افراد کسی فارم یا کسی اور چیز کے ویری فکیشن کے نام پر تفصیل جاننا چاہتے ہیں اور تفصیل بتاتے ہی ان کی چاندی ہو جاتی ہے۔
لالچ بری بلا
لاٹری نکلنے یا کوئی آفر دینے کا کھیل تو سائبر جرائم پیشہ خوب کرتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کو پھانسنے کے لیے یہ ان کا آزمودہ طریقہ ہے، بتایا جاتا ہے کہ اس طرح کے آفر دینے والوں کو اپنی تفصیل نہ بتائیں لیکن لوگ بتاتے ہیں اور وہ سائبر جرائم پیشہ کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔
بچا کیسے جائے؟
یعنی سائبر جرائم پر اگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اتنی بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسے پوری طرح روکنا یا ختم کرنا بے شک مشکل ہے مگر اس سے بڑی حد تک بچنا زیادہ مشکل نہیں ہے۔ تھوڑا سا شعور رکھنے والا آدمی بھی سائبر جرائم سے بچ سکتا ہے۔
پی آئی این (PIN) اور ای میل پاس ورڈ بدلتے رہیں
اے ٹی ایم بدل لینا یا اے ٹی ایم کے پن اور نمبروں کی کاپی کرلینا وغیرہ کی بھی خبریں چھپتی رہتی ہیں۔ خریداری کرتے وقت بے دھیان ہوکرکریڈٹ کارڈ یا ڈیبٹ کارڈ کا استعمال بھی خسارے کی وجہ بن جاتا ہے۔ اپنے پاس ورڈ اور پن کوڈ کہیں لکھ کر رکھنے کی بجائے اسے اپنی جی میل شیٹ میں محفوظ رکھیں۔
اے ٹی ایم کریڈٹ کارڈ کی حفاظًت
اے ٹی ایم کارڈ رقم نکلوانے کے لئے کسی کو مت دیں۔ کارڈ خریداری کے لئے استعمال کریں تو پاس ورڈ کسی کو مت بتائیں خود مشین میں اینٹر کریں۔