ایک نیوز: بی بی سی نے ایسے نئے شواہد کا سراغ لگایا ہے جو یونان میں تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے کے واقعے میں یونانی کوسٹ گارڈ کے مؤقف کو مزید مشکوک بناتے ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ ہونے والے اس واقعے میں پاکستانیوں سمیت 82 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 500 افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
اس واقعے میں زندہ بچ جانے والے دو افراد نے بتایا ہے کہ کس طرح یونانی کوسٹ گارڈ نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ کشتی پر سوار نو مصری شہریوں کی شناخت بطور انسانی سمگلر کریں۔
اس کشتی کے ڈوبنے کی ایک نئی ویڈیو بھی کوسٹ گارڈ کے مؤقف کو چیلنج کرتی ہے۔ یہ ویڈیو اس وقت بنائی گئی تھی جب کشتی درست سمت میں سفر کر رہی تھی۔
بی بی سی ویریفائی نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ یہ فوٹیج اس وقت بنائی گئی جب یونانی کوسٹ گارڈ کے مطابق اسے مدد کی ضرورت نہیں تھی۔
ہم نے اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ پس منظر میں نظر آنے والی بڑی کشتی ’فیتھ فل واریئر‘ نامی آئل ٹینکر ہے جسے تارکین وطن کی کشتی کو امداد فراہم کرنے کی تاکید کی گئی تھی۔
یونانی کوسٹ گارڈ کے مؤقف پر بی بی سی ویریفائی کی ایک پرانی رپورٹ میں سوال اٹھایا گیا تھا لیکن اب ہم عدالتی دستاویزات دیکھ چکے ہیں جن میں زندہ بچ جانے والوں کے کوسٹ گارڈ کو دیے جانے والے بیانات اور عدالت میں جج کے سامنے دیے جانے والے بیانات میں سنجیدہ تضاد نظر آتا ہے۔
ایک ایسا مترجم بھی سامنے آیا ہے جس نے گزشتہ سال انسانی سمگلنگ کے واقعے کی کہانی سنائی ہے جب ایک اور گروہ کو یونانی کوسٹ گارڈ نے بچایا تھا۔ انھوں نے بتایا ہے کہ کس طرح عینی شاہدین پر کوسٹ گارڈ نے دباؤ ڈالا اور عدالتی مقدمہ ٹرائل تک پہنچنے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔
زندہ بچ جانے والے دو افراد نے بتایا ہے کہ یونانی حکام نے تارکین وطن کو دھمکایا اور ان کو خاموش کروا دیا۔ ان کے مطابق یونانی کوسٹ گارڈ اس حادثے کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔
گزشتہ ماہ یہ الزامات سامنے آئے تھے کہ یونانی حکام نے ایک رسی کے ذریعے کشتی کو کھینچنے کی کوشش کی جس کی وجہ سے کشتی ڈوب گئی۔
جن افراد سے ہم نے بات کی وہ ایتھنز میں موجود تھے۔ ہم ان کو احمد اور مصعب کے فرضی ناموں سے پکار رہے ہیں تاکہ ان کی شناخت محفوظ رہ سکے۔
مصعب نے بتایا کہ ’انھوں نے بائیں طرف سے ایک رسی باندھی۔ کشتی پر سوار افراد دائیں طرف منتقل ہو گئے تاکہ توازن برقرار رہے۔‘
’یونانی کشتی تیزی سے چلی تو ہماری کشتی الٹ گئی۔ وہ کافی دور تک ہماری کشتی کو کھینچتے رہے۔‘
ان دونوں افراد نے بتایا کہ وہ دو گھنٹے تک سمندر کے پانی میں رہے جس کے بعد کوسٹ گارڈ نے ان کو نکالا۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ ان کو پانی میں گزرے وقت کی مدت کا کیسے پتا ہے تو مصعب نے کہا کہ ان کی گھڑی کام کر رہی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ ساحل پر پہنچنے کے بعد جب یونانی حکام کی وجہ سے حادثے کی بات ہونا شروع ہوئی تو کوسٹ گارڈ نے زندہ بچ جانے والوں کو چپ رہنے کا کہا۔
احمد نے کہا ’جب لوگوں نے جواب دیا کہ کوسٹ گارڈ اس حادثے کے ذمہ دار ہیں تو سوال کرنے والے افسر نے مترجم سے کہا کہ لوگوں سے کہے کہ وہ بات کرنا بند کر دیں۔‘
احمد کہتے ہیں کہ زندہ بچ جانے والوں سے کہا گیا کہ ان کو شکرگزار ہونا چاہیے کہ وہ ہلاک نہیں ہوئے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’چلاتے ہوئے کہا گیا تم موت سے بچے ہو، واقعے کے بارے میں بات کرنا بند کر دو اور سوال مت کرو۔‘
کوسٹ گارڈ نے پہلے رسی استعمال کرنے کی تردید کی تھی لیکن بعد میں انھوں نے بیان تبدیل کر لیا اور اعتراف کیا کہ ایک بار رسی باندھی گئی تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ رسی باندھنے کا مقصد کشتی پر سوار ہو کر صورتحال کا جائزہ لینا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کشتی ڈوبنے سے دو گھنٹے پہلے کی بات ہے۔
یونان کی سپریم کریمنل کورٹ کے ڈپٹی پراسیکیوٹر اس معاملے کی تفتیش کر رہے ہیں لیکن اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں اور افراد کی جانب سے بین الاقوامی اور آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کو اب تک نظر انداز کیا گیا ہے۔ یورپی کمیشن نے یونان کی تحقیقات پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔