ایک نیوز :سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات اور بلےکے انتخابی نشان کےکیس کا فیصلہ سنادیا، پی ٹی آئی سے بلے کا انتخابی نشان واپس لے لیا گیا ۔
تفصیلا ت کےمطابق سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو بلےکا نشان بحال کرنےکا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ، فیصلے کے تحت پی ٹی آئی سے بلےکا نشان واپس لے لیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ میں پشاور ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت ہو ئی جو شام 7 بجے کے بعد بھی جاری رہی، جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا جو اب سنا دیا گیا ہے۔
کیس کی سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نےکی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل تھیں، فیصلہ متفقہ طور پر سنایا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کو بلےکا نشان بحال کرنےکا پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے، فیصلے کے تحت پی ٹی آئی سے بلےکا نشان واپس لے لیا گیا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کیس کا فیصلہ پڑھ کر سنایا۔
5 صفحات کاتحریری فیصلہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسٰی نےتحریرکیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو انٹراپارٹی انتخابات کرانےکا نوٹس 2021 میں کیا، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو جون 2022 تک انتخابات کرانےکا وقت دیا، الیکشن کمیشن نے 20 دن میں انتخابات کرانے کا کہا، بصورت دیگر انتخابی نشان لینےکا بتایا گیا، پی ٹی آئی کی درخواست پر لاہور ہائی کورٹ 5 رکنی بینچ بنا جو زیر التوا ہے، پی ٹی آئی نے دوبارہ انتخابات کرا کر بھی لاہور ہائی کورٹ میں اپنی درخواست واپس نہیں لی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہےکہ پشاور ہائی کورٹ نے 22 دسمبر تک پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی الیکشن پر فیصلہ کرنے کو کہا، الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر کو کہا پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات درست نہیں کرائے، الیکشن کمیشن نے انٹراپارٹی انتخابات درست نہ کرانے پر انتخابی نشان پی ٹی آئی سےلیا، لاہور ہائی کورٹ کے سنگل جج نے 3 جنوری کو فیصلہ دیا۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پشاور ہائی کورٹ میں پی ٹی آئی نے درخواست دائر کرتے ہوئے نہیں بتایا کہ ایسی ہی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں پانچ رکنی بینچ کے سامنے زیر التوا ہے، ایک معاملہ ایک ہائی کورٹ میں زیر التوا ہو تو دوسری ہائی کورٹ میں نہیں چیلنج ہوسکتا، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کا الزام لگایا، عدالتی استفسار پر بتایا گیا کہ الیکشن کمیشن نے 13جماعتوں کے انتخابی نشان لیے، الیکشن کمیشن نےکہا کہ پی ٹی آئی نے انتخابات نہیں کرائے، پی ٹی آئی کے14 اراکین کی درخواست یہ کہہ کر ہائی کورٹ نے مسترد کی کہ وہ ممبران ہی نہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ پاکستان جمہوریت سے وجود میں آیا، پاکستان میں آمریت نہیں چل سکتی، ثابت نہیں ہوتا کہ پی ٹی آئی نے انٹراپارٹی انتخابات کرائے، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو انٹراپارٹی انتخابات کرانا ہوتے ہیں، پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کو نہیں بتایا کہ انٹرا پارٹی انتخابات کہاں کرا رہے ہیں، پشاور ہائی کورٹ کا الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215 کو برا کہنا ان کے سامنے درخواست سے تجاوز تھا۔
ہفتے کے روز کی سماعت کا احوال
سپریم کورٹ میں پشاور ہائیکورٹ فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر دوسرے روز سماعت ہو ئی جو شام 7 بجے کے بعد بھی جاری رہی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے سماعت کی، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بینچ میں شامل ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں۔
پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا عدالت کی معاونت کروں گا لیکن آج انتخابی نشان، حتمی فہرستوں کے اجراء کی آخری تاریخ ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا عدالت کو ادراک ہے، عدالت پر ایک بوجھ فیصلہ لکھنے کا بھی ہے جو وکیل پر نہیں ہے،وکیل تو بس دلائل دےکر نکل جاتے ہیں ہمیں فیصلہ لکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا آئین اور الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کوانٹرا پارٹی الیکشن کے جائزےکی اجازت نہیں دیتے، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا، آرٹیکل 17 دو تحت سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے۔
علی ظفر نے کہا کہ انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، سیاسی جماعت کو انٹراپارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں جو فیئر ٹرائل دے سکے۔
انہوں نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، اگر انتخابات چیلنج بھی ہوتے تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، الیکشن کمیشن کا انتخابی نشان سے انکار آرٹیکل 17 کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن عدالت نہیں ہے، الیکشن کمیشن احکامات حقائق کے برعکس، صوابدیدی ہوں تو عدالت کو جوڈیشل ریویو کا اختیار ہے، بنیادی سوال یہ ہےکہ سیاسی جماعت یا افراد کے سول رائٹس کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل سے ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے سے متصادم ہے کیونکہ ایسا کوئی ٹرائل نہیں ہوا۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے جو پرائیویٹ شہریوں کی تنظیم ہے، الیکشن کمیشن کو ازخود طور پر شکایت کنندہ اور فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، پی ٹی آئی نے 8 جون 2022 کو پہلا انتخاب کرایا، 23 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ غلط الیکشن ہیں، دوبارہ 20 دن میں کرائے جائیں، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اس وقت دیا جب سپریم کورٹ نے 8 فروری کی تاریخ کا فیصلہ دیا، الیکشن کمیشن کے حکم نامے میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لیے انتخابات تسلیم کرینگے نہ ہی نشان دینگے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا جمہوریت ملک کیساتھ سیاسی جماعتوں کے اندر بھی ہونی چاہیے، بنیادی سوال جمہوریت کا ہے پارٹی آئین پر مکمل عملدرآمد کا نہیں، کم از کم اتنا تو نظر آئے کہ انتخابات ہوئے ہیں، انتخابات جو بھی ہوں ہر کوئی ان سے خوش نہیں ہوتا، اکبر بابر بانی رکن تھے وہ پسند نہیں تو الگ بات لیکن انکی رکنیت تو تھی، صرف یہ کہنا کافی نہیں کہ درخواست گزار پارٹی رکن نہیں تھے، اکبر بابر نے اگر استعفیٰ دیا یا دوسری پارٹی میں گئے تو وہ بھی دکھا دیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا صرف سوشل میڈیا یا میڈیا پر الیکشن کمیشن پر الزامات عائد کرنا کافی نہیں، الیکشن کمیشن کی بدنیتی ثابت کرنا ہو گی، الیکشن کمیشن نے بتایا کہ پی ٹی آئی کی حکومت کے دوران شوکاز نوٹس کیے گئے، الیکشن ایکٹ کو چیلنج نہیں کیا گیا اس لیے ایکٹ پر کوئی بات نہیں کریں گے، کیا آپ کی حکومت میں الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ تھا جو اب کسی کے ماتحت ہو گیا؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا الیکشن ایکٹ کو ہم بھی چیلنج نہیں کر رہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کیا پی ٹی آئی نے اپنا جاری کردہ شیڈول کو فالو کیا تھا؟ کیا انتخابات شفاف تھے کچھ واضح تھا کہ کون الیکشن لڑ سکتا ہے کون نہیں؟
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا آپ لیول پلینگ فیلڈ مانگتے ہیں اپنے ارکان کو بھی تو لیول پلینگ فیلڈ دینی ہو گی، الیکشن کمیشن نے ازخود تو کارروائی نہیں کی شکایات ملنے پر کارروائی کی۔
وکیل پی ٹی آئی نے کہا الیکشن کمیشن نے ایسی کسی بے ضابطگی کی نشاندہی نہیں کی، تمام سوالات کے جواب دستاویزات کے ساتھ دوں گا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا جب پارٹی الیکشن ہو رہا تھا اس وقت پارٹی ہیڈ کون تھا، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا اس وقت سربراہ بانی پی ٹی آئی تھے، جبکہ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا الیکشن کمیشن نے الیکشن ایکٹ کے سیکشن 215کے تحت اقدام کیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہم عمومی طور پر اسٹیبلشمنٹ کا لفظ استعمال کر دیتے ہیں، ہم کیوں دیانت داری کے ساتھ فوج کا لفظ استعمال نہیں کرتے؟ مبینہ طور پر آج فوج کی مداخلت نظر نہیں آرہی، آپ یہ الزام لگاسکتے ہیں کہ فوج مداخلت کر رہی ہے، آپ کی درخواست پر 12دنوں میں انتخابات کی تاریخ دی گئی، آپ کی جماعت خوش تھی،سب خوش تھے، آج پاکستان میں عدالتوں تک رسائی حاصل ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ایسی بات نہیں ہے کہ کوئی درخواست دائر نہیں کر سکتا، جب آپ حکومت میں تھے ہمیں وہاں بھی جانا ہوگا، جب آپ کو الیکشن کمیشن نے پہلا نوٹس جاری کیا، میڈیا میں آ کر الزامات لگا دینے سےآئینی ادارے کمزور ہوتے ہیں، اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ الزامات نہ لگائیں اگر وہ سچے ہیں، جب آپ حکومت میں تھے الیکشن کمیشن نے آپ کو نوٹس کیا تھا، ہمیں دیکھنا ہو گا اس وقت کیا بدنیتی کی گئی؟
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے کیلئے پوری ٹائم لائن دیکھنا ہوگی، اچانک الزام لگانا کہ اسٹیبلشمنٹ الیکشن کمیشن پراثرانداز ہو کرکچھ کر رہی ہے ہم اس بات کو یقینی طور پر سنیں گے، اس اسٹیبلشمنٹ پر اس وقت آپ کا یہ الزام نہیں ہوگاکہ یہ الیکشن کمیشن کے ساتھ ملے ہوئے ہیں، اگر آپ اسے ڈرامائی اور سیاسی رنگ دینا چاہتے ہیں تو پورا متن بیان کریں یا اپنے کیس کو قانون تک محدود رکھیں۔
پی ٹی آئی وکیل نے کہا الیکشن ایکٹ کے مطابق ہر سیاسی جماعت نے پارٹی انتخابات کے7 دن میں سرٹیفکیٹ دینا ہے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا سرٹیفکیٹ پارٹی آئین کے مطابق انتخابات سے مشروط ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی انتخابات کی اسکروٹنی کا اختیار نہیں ہے، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا اصل مسئلہ ہی دائرہ اختیار کا بنا ہوا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا ایک ہی دکھڑا ہے کہ پارٹی انتخابات کرا لو، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا پارٹی الیکشن کرائے لیکن وہ الیکشن کمیشن نے نہیں مانیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا 14 درخواست گزاروں کو الیکشن کیوں لڑنے نہیں دیا؟ جس پر علی ظفر نے کہا کسی کو اعتراض ہے تو سول کورٹ چلا جائے، چیف جسٹس نے کہا ہم جمہوریت کیساتھ کھڑے ہیں چاہے وہ گھر کے اندر ہو یا باہر ہو، آپ تسلیم کرلیں جمہوریت چاہیے یا نہیں؟آپ کو سیاست چاہیےجمہوریت نہیں چاہیے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کو سرٹیفکیٹ تب ملے گا جب پارٹی آئین کےمطابق انتخابات ہوں گے، جس پر جسٹس مسرت ہلالی نے کہا الیکشن کمیشن انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر ایسا حکم نہیں دے سکتا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے یہ ایسی بات ہےکہ پاکستان اور انگلینڈ کا ٹیسٹ میچ ہے،کھیلے نہیں مگر سرٹیفکیٹ مل گیا، پارٹیوں میں بڑےعہدوں پربڑی سیاسی شخصیات ہوتی ہیں، ہو سکتا ہے احترام میں ان بڑی سیاسی شخصیات کےخلاف کاغذات جمع نہ کرائے گئے ہوں، جو چھوٹے عہدے ہیں ان پربھی بلامقابلہ امیدوار منتخب ہوئے، اس طرح پارٹی انتخاب کی ساکھ نظر نہیں آتی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا فرض کریں کوئی بھی الیکشن لڑنے نہیں آیا تو کیا الیکشن کالعدم ہو جائے گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا پوری جمہوریت پر چلیں گے، لنگڑی لولی والی بات نہیں ہو گی، اگر 8 فروری کو 326 ارکان کوبلامقابلہ جتواکر آجائیں تو میں ایویں نہیں مانوں گا، سرکار 326 امیدواروں کو ان کےگھروں میں بند کردے اور 326 امیدواروں کو بلامقابلہ منتخب کرائے، قانونی طور پر تو الیکشن ہوگا لیکن میں تو اسےالیکشن نہیں مانوں گا، سوچ سمجھ بھی کوئی چیز ہوتی ہے، پارٹیوں کے اندربھی جمہوریت ہونی چاہیے، کاغذ کے ٹکڑوں پر نہیں چلتا ایک چیز ہے کہ کچھ ہوا یا نہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی نے ویب سائٹ پر تو اعلان نہیں کیا، مخصوص لوگوں کو کیسے پتا کہ الیکشن ہے، جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا پارٹی الیکشن کےکاغذات نامزدگی ویب سائٹ پر بھی تھے اور صوبائی الیکشن کمیشن میں بھی تھے ، پارٹی الیکشن ہونے کے بعد کاغذات نامزدگی ویب سائٹ سے ہٹا دیے گئے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا یہ تو پھرآپ تسلیم کر رہےہیں کہ آپ نے پارٹی کے آئین کی خلاف ورزی کی، آپ کےآئین میں درج ہےکہ پارٹی چیئرمین کا الیکشن 2 سال بعد اورباقی عہدیداروں کا 3سال بعد ہونا ہے، سب جانتےہیں کہ سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے عہدوں پرکون کون لوگ موجود ہوتے ہیں، شاید عزت میں یا کسی اور وجہ کے تحت ان عہدوں پر کوئی سوال نہیں اٹھاتا، چلیں ان بڑے عہدوں پر نہ سہی چھوٹے عہدوں پر تو الیکشن ہونے چاہئیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے انٹراپارٹی الیکشن بلامقابلہ ہوئے ہیں تو پھرآپ کےمطابق جوپشاورکےعلاقے چمکنی میں اتنے لوگ اکٹھے تھے وہ کیوں آئے، کیا وہاں کسی نے بھی کسی ایک عہدیدارکے بلامقابلہ منتخب ہونے پر سوال نہیں اٹھایا؟
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا ہر جماعت کے پاس ایک بڑا لیڈر ہوتا ہے، سیاسی جماعتوں میں اس لیڈرکی عزت کےتحت لوگ ان کے فیصلے کی مخالفت نہیں کرتے، پی ٹی آئی کے پاس بانی پی ٹی آئی جیسی قیادت ہے جس کے فیصلے پر لوگوں نے اعتراض نہیں کیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے معذرت کےساتھ پھر یہ جمہوریت نہیں آمریت ہے، میں اسے آمریت کہوں گا، کچھ عہدیداروں پر اعتراض نہ ہو سمجھ آتی ہے مگر کسی پر اعتراض نہ ہونا سمجھ سے باہر ہے۔
علی ظفر نے کہا اگر یہ بھی سمجھ لیاجائےکہ انٹرا پارٹی انتخابات کے مقام پرکوئی نہیں آیا تو بھی الیکشن پر سوال نہیں ہو سکتا۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا بیرسٹرگوہر یا آپ نے پی ٹی آئی کب جوائن کی؟ جس پر بیرسٹر گوہر نے کہا میں نےکچھ عرصہ قبل سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کی جبکہ علی ظفر نے بتایا کہ بیرسٹر گوہر پہلے پیپلز پارٹی میں تھے، چیف جسٹس نے کہا تو ہم ایک ایسے پارٹی سربراہ کی بات پریقین کریں جو 2 سال پہلے آیا، اکبرایس بابرپر نہ یقین کریں جو بانی رکن ہیں؟ علی ظفر نے کہا اکبر ایس بابر کو 2018 میں پی ٹی آئی سے نکال دیا تھا، چیف جسٹس پاکستان نے کہا دکھائیں برطرفی کا لیٹر،کل سے یہی تو مانگ رہے ہیں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا اکبر ایس بابر پارٹی ممبر نہیں ہیں تو اس کے ثبوت دکھائیں، جس پر علی ظفر نے کہا مجھے پارٹی کی ہدایات ہیں کہ اکبر ایس بابر سمیت دیگر درخواست گزار رکن نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا آپ کو ہدایات کس نے دی ہیں؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا پارٹی چیئرمین کی ہدایت ہے کہ درخواست گزار ممبر نہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہدایات وہ چیئرمین دے رہے ہیں جو 2 سال پہلے پارٹی میں آئے۔
علی ظفر بولے پی ٹی آئی کی ویب سائٹ اور رابطہ ایپ پر تمام ممبرز کی تفصیل موجود ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بولے ویب سائٹ کوئی ثبوت نہیں ہوتا، آپ کے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں بھی الیکشن لڑنے دیا جائے بس اتنی سی بات ہے، آپ کو ان کی شکل کیوں بری لگتی ہے اگر ایک آدھ سیٹ لے بھی گئے تو کیا ہوگا۔
پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا اکبر ایس بابر بانی ارکان میں سے نہیں ہیں، یہ بھی پتا چل گیا ہے، چیف جسٹس نے کہا پتا کیا چل گیا ان کا قد کاٹھ آپ سے کہیں زیادہ ہے، علی ظفر آپ نے کب پارٹی جوائن کی، جس پر علی ظفر بولے میں نے تو ابھی حال ہی میں پارٹی جوائن کی ہےڈیڑھ سال پہلے، میں اس سے پہلے کسی سیاسی جماعت میں نہیں تھا۔
علی ظفر نے کہا 20 نومبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کا اعلان ہوا جو میڈیا میں رپورٹ بھی ہوا، بانی پی ٹی آئی نے کس کو چیئرمین نامزدکیا وہ اگلے ہی دن اعلان کر دیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا لیٹر کہاں ہے؟ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیتے ہوئے کہا بانی پی ٹی آئی کی نامزدگی کا کوئی خط نہیں ہے، میڈیا پر اعلان کیا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا ایسے کیسے تسلیم کر لیں کہ بانی پی ٹی آئی نے کس کو نامزد کیا تھا، آپ پرانے اور حامد خان بانی رکن ہیں انہیں کیوں نہیں نامزد کیا گیا؟کل بانی پی ٹی کہہ دیں کہ میں نے نامزد نہیں کیا تھا پھر کیا ہوگا، نیازاللہ نیازی کب پی ٹی آئی کا حصہ بنے؟
علی ظفر نے کہا نیاز اللہ نیازی 2009 سے پی ٹی آئی کے رکن ہیں، جس پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا اچانک نئے نئے چہرے سامنے آنے سے ایلیٹ کیپچرکا تاثر مل رہا ہے، علی ظفر نے کہا پی ٹی آئی آئین کے مطابق کوئی اکیلاشخص الیکشن نہیں لڑ سکتا، پینل بنانا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کیا یہ جمہوریت کیخلاف نہیں ہے؟ علی ظفر اس پر بولے ہونا تو ایسے ہی چاہیے لیکن پارٹی آئین میں یہی لکھا ہے۔
تحریک انصاف کے چیف الیکشن کمشنر نیاز اللہ نیازی نے کہا میرا بیٹا تو لا کلرک کے لیےآپ کےپاس آیا تو اس سے بھی پی ٹی آئی کے سوال ہوئے، مجھے پتا ہے سارا، مسٹرعلی ظفر، یہ لائیو ٹیلی کاسٹ ہے اور مجھے یہ کہنا چاہیے، مجھےتو یہ بھی علم نہیں کہ نیازاللہ نیازی کا کوئی بیٹا بھی ہے اور وہ میرے سامنے پیش ہوا، اس قسم کا الزام لگا رہے ہیں جو انتہائی نامناسب ہے، اگرآپ اس عدالت کے وقار کو گرانا چاہتے ہیں توگراتے رہیں، میرا خیال ہے یہ نہیں رک رہے ہمیں اٹھ جانا چاہیے، یہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے ہم پھر سماعت کو مکمل کر لیتے ہیں۔
نیاز اللہ نیازی نے کہا ہمارا سینٹرل آفس لاک ہوا ہے، ای سی پی کو سارا ریکارڈ ہم نے جمع کرا دیا ہے، جس پر چیف جسٹس نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے سوال کیا میراخیال ہےکہ آپ کے وکیل اور چیئرمین پی ٹی آئی بات کر رہے ہیں، علی ظفر لگتا ہے کہ آپ کے الیکشن کمشنراور چیئرمین آپ پر اعتماد نہیں کر رہے، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے کہ وہ خود آ کر دلائل دے دیں۔ جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا میں نیاز اللہ نیازی کا الزام خود پر لیتا ہوں کہ کاغذات داخل نہ کر سکے۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا دراصل چیئرمین پی ٹی آئی خود بھی وکیل ہیں اس لیے وہ آرام سے سن نہیں پا رہے، جسٹس مسرت ہلالی کی بات کے دوران نیاز اللہ نیازی نے بولنا شروع کر دیا، جس چیئرمین پی ٹی آئی نے نیاز اللہ نیازی کو ٹوکتے ہوئے کہا آپ نہ بولیں۔
نیاز اللہ نیازی نے کہا آپ پوچھ رہے ہیں کہ الیکشن کیا ہوا کیسے ہوا، جس پر چیف جسٹس نے کہا ہم آپ سے بات نہیں کر رہے، یا تو علی ظفر صاحب سےکہیں کہ وہ آپ کے وکیل نہیں ہیں تو آپ کو سن لیتے ہیں۔ علی ظفر ایڈووکیٹ نیاز اللہ نیازی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر چپ رہنے اوربیٹھنےکا کہتے رہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا چمکنی میں جہاں الیکشن ہوا وہاں پی ٹی آئی کا دفتر موجود ہے، آفس کے ساتھ ہی گراؤنڈ ہے جہاں پر الیکشن ہوا، فیصلہ ہوا کہ اگرپولنگ ہوئی تو نشتر ہال میں ورنہ پھرگراؤنڈ میں منعقد ہو گا، پارٹی آئین کہتا ہے الیکشن پینل کے ذریعےہوں گے یہ واضح نہیں کہ ایک شخص لڑ سکتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا آپ کے آئین میں لکھا ہےکہ چیئرمین پارٹی براہ راست خفیہ ووٹ سے منتخب ہوگا، فرض کریں آپ نے عہدہ چھوڑ دیا، الیکشن ہوا توکیا ووٹنگ نہیں ہوگی، ووٹنگ یہ بھی ہو سکتی ہے میں کسی کوپسندنہیں کرتا یا پارٹی پسند نہیں کرتی، میں ووٹ نہیں دیتا، تو آپ منتخب تو نہیں ہوئے، مطلب یہ ہوا کہ آپ کو ایک ووٹ بھی نہیں ملا۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا ہم نےالیکشن کمیشن سے آپشن لےکر سکیورٹی فراہم کرنےکا کہا، الیکشن کمیشن نے آئی جی کوپشاور میں سکیورٹی فراہم کرنے کے لیے خط لکھا، جیسے جیسے لوگ آتے گئے، میڈیا پر مطلع کیا جاتا رہا، جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کیا مقام کا بتایاگیاتھا کہ کہاں انتخاب ہو رہا ہے؟ علی ظفر نے کہا جب آئی جی کو خط لکھ دیا تھا تو انہیں بتا دیاگیا تھا، پولیس نے سائٹ کا دورہ کیا اور تمام نیوزپیپرز نے جگہ کے بارے میں خبر دی، عوام کو علم تھا۔
چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن میں ایک بھی شخص نے ووٹ کاسٹ نہیں کیا، عام انتخابات میں بھی ہوتا ہےکہ ہر شخص الیکشن لڑ سکتا ہے چاہے ووٹ نہ ملیں، عام انتخابات میں بھی ہوتاہےکہ اتنی تعداد میں ووٹ ہوں ورنہ دوبارہ انتخابات ہوں گے، ایسے تو پی ٹی آئی آمریت کی طرف جا رہی ہے، کسی اور کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات لڑنےہی نہیں دیا، سینیٹ میں بھی اگر ایک بھی ووٹ نہ پڑےتو وہ منتخب نہیں ہوتے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا ایسے تو میں بھی سینیٹ میں بلامقابلہ سینیٹر بنا ہوں، جس پر چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی کی پوری باڈی بغیر مقابلےکے آئی، پی ٹی آئی میں لوگ الیکشن سےنہیں سلیکشن سے آئے، اگر 6 پینل تھے اور 6 کے 6 منتخب ہوگئے تو پھر اجتماع کی کیا ضرورت تھی؟
پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا پارٹی آئین کے مطابق عوامی طور پر نتائج کا اعلان کرنا پولنگ وینیوپر ضروری تھا، وینیو پر 500 سے سوا 500 لوگ جمع ہو گئے تھے، عدالت سوال پوچھتی ہے وکیل اس کا جواب دیتا ہے تو اس طرح کا ماحول ہمیں بنانا چاہیے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا یہ بات تو واضح ہوگئی کہ اکبر ایس بابر بانی رکن تھے لیکن پھر آپ نے آئین بدل لیا، حامد خان صاحب نے تو پہلے دن ہی کہہ دیا تھا کہ وہ بانی رکن ہیں۔
بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کو جانچنے کا اختیار نہیں دیتا، جس پر چیف جسٹس پاکستان نے کہا اگر پارٹی فنڈ سے متعلق جانچنے کا اختیار الیکشن کمیشن کو ہےتوپارٹی الیکشن کے انتخابات نہ جانچنے کا اختیار کیسے نہیں۔
سپریم کورٹ میں بلے کے نشان سے متعلق سماعت مکمل کرکے فیصلہ محفوظ کیاگیاتھا۔