ایک نیوز: جنیوا کانفرنس میں اعلان کردہ نو ارب 70 کروڑ ڈالر میں سے ایک تہائی رقم اگلے چند ماہ میں پاکستان کو مل جائے گی اور اس میں سے زیادہ تر رقم ایک فیصد شرح سود پر40 سال کے لیے قرض کی مد میں ملے گی۔
اسلام آباد میں صحافیوں کے ایک گروپ سے بات کرتے ہوئے پاکستانی وفد کے رکن اور سیکریٹری وزارت پلاننگ اور خصوصی اقدامات سید ظفر علی شاہ نے بتایا کہ ’تقربیا دوارب سے زائد کی رقم رواں مالی سال یعنی جون سے قبل ہی پاکستان کو مل جائے گی جسے سیلاب زدہ علاقوں میں مختلف پراجیکٹس کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘
سیکریٹری پلاننگ کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی ادارے امداد نہیں قرض ہی دیتے ہیں تاہم مخلتف ممالک نے جو تقریبا ایک ارب ڈالر سے زائد رقم کا اعلان کیا ہے وہ امداد کی شکل میں ملے گی۔
’ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک کی جانب سے ملنے والا قرض انتہائی آسان شرائط پر ہے اور صرف ایک فیصد شرح سود پر پاکستان کو 40 سال میں ادا کرنا ہے۔ دنیا میں اس وقت ایک فیصد شرح سود پر ملنے والا قرض امداد ہی سمجھا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اسلامی ترقیاتی بینک (آئی ڈی بی) نے جو تین سال میں چار ارب 20 کروڑ ڈالر کا اعلان کیا ہے اس کی شرائط و ضوابط ابھی طے ہونا باقی ہیں۔ تاہم ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ جنیوا میں طے کی جانے والی نو ارب ڈالر سے زائد رقم مالیاتی اداروں کے پہلے سے جاری منصوبوں کے لیے نہیں بلکہ یہ اضافی رقم ہو گی۔
آئی ایم ایف کے پروگرام کے حوالے سے پاکستان کو کوئی رعایت ملے گی یا نہیں اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ابھی اس پر وہ ’بات نہیں کر سکتے‘ تاہم انہیں امید ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان کے حق میں مسلسل بات چیت کا کچھ اثر ہو گا۔
ان کا کہنا تھا کہ جنیوا کانفرنس میں تمام صوبوں کی نمائندگی تھی تاہم سندھ کو زیادہ امداد ملنے کی وجہ وہاں سیلاب کی زیادہ تباہ کاری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کانفرنس کی جانب سے ملنے والی رقم میں سے تقریباً 70 کروڑ ڈالر سے خیبرپختونخوا اور اتنی ہی رقم سے پنجاب میں بحالی کا کام کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ سوموار کو جنیوا کانفرنس میں پاکستان میں سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے ڈونرز کانفرنس ہوئی تھی جس میں عالمی اداروں اور ممالک نے پاکستان میں سیلاب سے متاثرہ تین کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد کی بحالی کے لیے نو ارب ڈالر سے زائد امداد دینے کا وعدہ کیا تھا۔ جنیوا کانفرنس میں 40 ممالک کے حکام، پرائیویٹ ڈونرز اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے شرکت کی تھی۔