ایک نیوز:سپریم کورٹ نے سویلینز کے خصوصی عدالتوں بارے 5 رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا، فیصلہ 5-1کی اکثریت سے جاری ہوا۔سپریم کورٹ نے انٹرا کورٹ اپیل میں فوجی عدالتوں کو سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دے دی۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے معاملے پر سماعت ہوئی، جسٹس سردار طارق مسعود کی سربراہی میں بنچ سماعت کررہا ہے۔
لطیف کھوسہ نے عدالت سے مکالمہ کرتے ہوئے کہاکہ بنچ پر اعتراض ہے۔
وکیل اعتزاز احسن نے کہا کہ نوٹس سے پہلے ججز پر اعتراض ہو تو اس پر دلائل ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فریقین کے وکلاء کا اعتراض بے بنیاد ہے،پہلے میرٹس پر کیس سنیں، نوٹس کے بعد اعتراض اٹھایا جا سکتا ہے۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ نوٹس ہونے کے بعد اعتراض اٹھانے پر کیس متاثر ہو گا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جسٹس سردار طارق اپنے نوٹ میں فوجی عدالتوں کی درخواستوں پر رائے دے چکے ہیں۔
جسٹس سردار طارق نے وکلاء سے سوال کیا کہ کس نے اعتراض کیا ہے؟
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اعتراض جواد ایس خواجہ نے کیا ہے۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ جواد ایس خواجہ کا اپنا فیصلہ ہے کہ جج کی مرضی ہے وہ اعتراض پر بنچ سے الگ ہو یا نا ہو۔میں نہیں ہوتا بنچ سے الگ، کیا کر لیں گے؟۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے جواد ایس خواجہ کے اعتراض کا جواب دیتے ہوئے بنچ سے الگ ہونے سے انکار کر دیا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ آپ بیٹھ کر ہمارے اعتراض کے باوجود کیس سن رہے ہیں۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے استفسار کیا کہ تو کیا کھڑے ہو کر کیس کی سماعت کریں؟
اٹارنی جنرل دوران سماعت غصے میں آ گئے اور کہا کہ جب نوٹس نہیں تو اعتراض کیسے سنا جا سکتا ہے؟جنہوں نے اعتراض کیا وہ خود تو عدالت میں نہیں ہیں،بہتر ہے پہلے بنچ اپیلوں پر سماعت کا آغاز کرے۔
عدالت نے اپیلوں پر سماعت کا آغاز کر دیا،فریقین کے وکلاء کو نشستوں پر بیٹھنے کی ہدایت کردی گئی۔
شہداء فاؤنڈیشن کے وکیل شمائل بٹ نے اپیل پر دلائل کا آغاز کر دیا۔
بیرسٹر اعتزاز احسن بھی روسٹم پر آگئے اور کہا کہ اعتراض پر فیصلہ پہلے ہونا چاہیے کہ آپ نے بینچ میں بیٹھنا ہے یا نہیں۔
جسٹس سردار طارق نے ریمارکس دیئے کہ میں نہیں کر رہا سماعت سے انکار آگے چلیں۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر اپیل کنندہ شہدا فورم کے وکیل سے مکالمہ کیا اور کہ کہا کہ آپ نے تفصیلی فیصلے کے بعد درخواست میں ترمیم بھی کرنا ہوگی۔
جسٹس سردار طارق نے اٹارنی جنرل کو دلائل شروع کرنے کی ہدایت کردی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں پہلے خواجہ حارث کو وقت دینا چاہتا ہوں۔
خواجہ حارث وزارت دفاع کی جانب سے روسٹرم پر آگے۔
جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ شہدا فورم کے علاوہ وفاقی حکومت کی جانب سے کیا دائر کیا گیا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت دفاع وفاقی حکومت اور وزارت داخلہ کی جانب سے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کی گئی۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دینا شروع کردیئے ۔
جسٹس طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں آرمی ایکٹ کی شقوں کو غیر اّئینی قرار دے دیا گیا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ آرمی ایکٹ کی شقیں کس آئین کی شق کے تحت غیر آئنی ہے۔فیصلہ اس بارے میں خاموش ہے۔ایف بی علی کیس میں فوجی ایکٹ کی شقوں کو برقرار رکھا گیا۔سپریم کورٹ میں 17 رکنی فل کورٹ نے بھی اکیسیویں ترمیم کیس میں ایف بی علی کیس کو درست قرار دیا۔سپریم کورٹ ایک 9 رکنی بینچ فیصلے میں کہہ چکی کہ جرم کا تعلق فوج سے ہو تو فوجی عدالت میں ٹرائل ہوسکتا ہے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ شفاف ٹرائل بارے آپ کی کیا رائے ہے۔
سپریم کورٹ میں گزشتہ روز 23 فوجیوں کی شہادت کا تذکرہ ہوا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ کل جو 23 بچے شہید ہوئے ان پر حملہ کرنے والوں کا ٹرائل کیسے ہو گا؟جو فوجی جوانوں کو شہید کر رہے ہیں ان کا تو اب ٹرائل نہیں ہو سکے گا کیونکہ قانون کالعدم ہو چکا،جنہوں نے کل 23 جوان شہید کیے ان سویلینز کا ٹرائل اب کس قانون کے تحت ہو گا؟ سیکشن 2 ون ڈی کالعدم ہونے کے بعد دہشتگردوں کا ٹرائل کہاں ہو گا؟۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ عدالت موقع دے تو اس معاملے پر سیر حاصل دلائل دیں گے۔ہمیں جب سنا جائے گا تو ہم ان سوالوں پر تسلی بخش جواب دیں گے،سیکشن 2ون ڈی 1967 میں آیا تو اس کے بعد 1973 میں آئین آیا،بنیادی حقوق کو آئین میں تحفظ دیا گیا۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ ایک تو بنیادی حقوق پتہ نہیں ہمیں کہاں لیکر جائیں گے۔
اٹارنی جنرل نے ملٹری کورٹس میں ٹرائل چلانے کی مشروط اجازت دینے کی استدعا کردی۔
جسٹس سردار طارق مسعود نے ریمارکس دیئے کہ ایک قانون کالعدم ہوچکا اس میں سے کیسے چیزیں نکال نکال کر آپ کہہ رہے کہ ہم اجازت دیں۔
جسٹس میاں محمد علی مظہرنے ریمارکس دیئے کہ اس کیس میں اتنی جلدی کیا ہے؟۔
سپریم کورٹ نے سویلینز کے خصوصی عدالتوں بارے پانچ رکنی بنچ کا فیصلہ معطل کردیا، فیصلہ 5-1کی اکثریت سے جاری ہوا،جسٹس مسرت حلالی نے اکثریتی فیصلہ سے اختلاف کیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی مزید سماعت جنوری کے تیسرے ہفتے تک ملتوی کردی۔
قبل ازیں وفاقی حکومت کی جانب سے عدالت عظمیٰ میں دائر کی گئی اپیل میں فوجی عدالتوں سے متعلق حکم کو کالعدم قرار دینے اور اپیلوں کی سماعت کے دوران عدالتی حکم کو معطل کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
اپیل میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ درخواست گزاروں کی جانب سے آرمی ایکٹ کے سیکشن 2(1) ڈی اور سیکشن 59(4) کو چیلنج کیا گیا تھا ۔ کیس میں اصل تنازع سپریم کورٹ کے فیصلے میں حقائق اور آرٹیکل 199 کے تحت دستیاب فورم کو مد نظر نہ رکھنا ہے۔
درخواست کے مطابق سویلین کی تعریف میں تمام شہری آتے ہیں، چاہے وہ دہشت گرد ہوں یا دشمن۔سپریم کورٹ کی جانب سے 2(1) ڈی اور 59(4) کو کالعدم کرنے سے نان یونیفارم شہریوں کے حوالے سے قانون ختم ہو گیا ۔ وفاقی حکومت کو تمام درخواستوں میں فریق بنایا گیا تھا ۔