ایک نیوز نیوز: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب ترامیم اس اسمبلی نےکیں جو مکمل ہی نہیں، اس نکتے پر کوئی قانون نہیں ملا کہ نامکمل اسمبلی قانون سازی کر سکتی ہے یا نہیں۔پارلیمان کا کام ہے سسٹم میں بہتری کے لیے قانون بنائے اور عمل بھی کرائے، صوبے میں 5 ماہ بعد آئی جی اور 3 ماہ بعد ایس ایچ او بدل جاتا ہے، ایگزیکٹو فیصلے کرتے وقت قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔کرپشن غلط ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کرپشن نہیں ہونی چاہیے، کرپشن ختم کرنا ایگزیکٹو کا کام ہے۔
سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ سیاسی حکمت عملی کے باعث آدھی سے زیادہ اسمبلی نے بائیکاٹ کر رکھا ہے۔
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ایگزیکٹو اپنا کام نہ کرے تو لوگ عدالتوں کے پاس ہی آتے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ نیب ترامیم سے فائدہ صرف ترمیم کرنے والوں کو ہی ہوا ہے، چند افراد کی دی گئی لائن پر پوری سیاسی پارٹی چل رہی ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لائن فالو کرنے سے فائدہ صرف چند افراد کی ذات کو پہنچتا ہے، نیب ترمیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا، کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پیر باندھ کر تماشا دیکھے؟
جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا ہے کہ نیب ترمیم کی ہدایت کرنے والوں کو اصل میں فائدہ پہنچا، کیا ایسی صورتحال میں عدلیہ ہاتھ پر ہاتھ باندھ کر تماشا دیکھے؟ نیب ترامیم کو بغیر بحث جلد بازی میں منظور کیا گیا، ترامیم کی نیت ہی ٹھیک نہ ہو تو آگے جانے کی ضرورت ہی نہیں۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں کے باوجود کرپشن ختم نہیں ہو سکی، مسئلہ صرف کرپشن کا نہیں سسٹم میں موجود خامیوں کا بھی ہے، سسٹم میں موجود خامیاں کبھی دور کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ پارلیمان کا کام ہے سسٹم میں بہتری کے لیے قانون بنائے اور عمل بھی کرائے، صوبے میں 5 ماہ بعد آئی جی اور 3 ماہ بعد ایس ایچ او بدل جاتا ہے، ایگزیکٹو فیصلے کرتے وقت قانون پر عمل نہیں کیا جاتا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ریکوڈک اور اسٹیل مل کے فیصلے عدالت نے اچھی نیت سے کیے، حکومت سسٹم کی کمزوری کے باعث منصوبوں میں کرپشن پکڑ نہیں سکی، نیب قانون کے غلط استعمال سے کتنے لوگوں کے کاروبار تباہ ہو چکے ہیں، کرپشن پر کسی صورت معافی نہیں ہونی چاہیے۔
وکیل عمران خان خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا نیب قانون کا اطلاق افواج پاکستان پر نہیں ہوتا، فورسز کے ان افسران پر نیب قانون لاگو ہوتا ہے جو کسی سول ادارے میں تعینات ہوں۔ نیب قانون کا اطلاق عدلیہ پر بھی نہیں ہوتا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ ججز کو نوکری سے ہی نکالا جا سکتا ہے ان سے ریکوری نہیں ہوسکتی۔ خواجہ حارث نے کہا سپریم کورٹ ماضی میں قرار دے چکی ڈسپلن کے معاملے پر افواج کیخلاف آئینی درخواست نہیں ہوسکتی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا فوج کے خلاف آئینی درخواست تعیناتی یا تبادلے کے معاملے میں نہیں ہوسکتی۔ فیصلے میں انفرادی کرپشن پر کسی فوجی افسر کو چھوڑنے کا کہیں ذکر نہیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ 2001 میں دیا تھا تب حکومت کس کی تھی؟ جس پر وکیل عمران خان نے کہا حکومت جس کی بھی تھی فیصلہ سپریم کورٹ نے ہی دیا تھا۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دئیے کہ آرٹیکل 25 مساوات کی بات کرتا ہے کسی کیساتھ جانبداری نہیں ہونی چاہیے۔ فوج کو استثنی دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ فوج کیخلاف بات نہ کرنے کا مطلب نہیں کہ کرپشن پر انکے خلاف کاروئی نہیں ہوسکتی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایڈمرل منصور کو پاکستان لا کر نیب نے کاروائی کی تھی۔ ماضی میں کئی فوجی افسران کیخلاف کاروائی کی مثال موجود ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا نیب قانون کے مطابق آرمی افسران اگر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی عہدہ لیں تب بھی سوال نہیں ہو سکتا۔ عدالت کو اس سوال پر اپنے دلائل دیں۔ بعدازاں عدالت نے کیس کی مزید سماعت کل تک کیلئے ملتوی کر دی۔