ایک نیوز :سپریم کورٹ نے عدالتی اصلاحاتی بل پرعملد رآمد روک دیا ۔
تفصیلات کےمطابق سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے حوالے سے کیس کا تفصیلی حکمنامہ جاری کردیا گیا ۔سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے متفقہ طور پر حکمنامہ جاری کیا ۔
سپریم کورٹ کے حکمنامے میں کہا گیا کہ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی ،تاحکم ثانی بل پر کوئی کارروائی نہ کی جائے ۔صدر مملکت بل پر دستخط کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں عملدرآمد نہیں ہوگا ۔
تحریری حکمنامے میں مزید کہا گیا کہ درخواست گزار کے وکیل نے اہم قانونی نکات اٹھائے ،عدلیہ کی آزادی سے متعلق بھی نکتہ اٹھایا گیا، سپریم کورٹ بل کی آئینی حیثیت کا جائزہ لے گی، سیاسی جماعتیں چاہیں تو اپنے وکلاء کے ذریعے فریق بن سکتی ہیں، عدلیہ کی آزادی میں مختلف طریقوں سے براہ راست مداخلت کی گئی ہے، بل قانون کا حصہ بنتے ہی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت شروع ہو جائے گی، بل پر عبوری حکم کے ذریعے عملدرآمد روکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
کیس میں مسلم لیگ ن، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف،جے یو آئی، ایم کیو ایم، بی اے پی، ق لیگ کو بھی نوٹس جاری کردیئے گئے ۔کیس کی آئندہ سماعت 2 مئی تک ملتوی کر دی گئی۔
عدالت عظمیٰ میں ’’سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل‘‘ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 8 رکنی بینچ نے کی۔سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ کی سکیورٹی کے سخت اقدامات کیے گئے تھے، جس کے تحت رینجرز کی بڑی تعداد عدالت عظمیٰ کے اندر اور باہر موجود جب کہ پولیس اور ایف سی کی بھاری نفری بھی تعینات کی گئی تھی۔
درخواست گزار راجا عامر کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے عدالت کو بتایا کہ موجودہ حالات میں یہ مقدمہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ قاسم سوری کیس کے بعد سیاسی تفریق میں بہت اضافہ ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کی بحالی کے بعد سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن انتخابات کروانے پر آمادہ نہیں۔
امتیاز صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالت کو انتخابات نہ کروانے پر از خود نوٹس لینا پڑا۔عدالت نے الیکشن کمیشن کو انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ 3اپریل کو عدالت نے دوبارہ انتخابات کروانے کا حکم دیا۔ آئین پر عمل کرنے کے عدالتی حکم کے بعد مسائل زیادہ پیدا کیے گئے۔ عدالت اور ججز پر ذاتی تنقید کی گئی۔ حکومتی وزرا اور ارکان پارلیمنٹ اس کے ذمے دار ہیں۔