ایک نیوز: حکمران اتحاد کی مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ حکومتی معاملات میں از خود نوٹس لیکر مداخلت کی گئی جس کی قیمت پوری قوم نے ادا کی موجودہ عدالتی کاروائی کی ٹائمنگ درست نہیں ہے اس 8رکنی بنچ کو تحلیل کیا جائے جب قانون بن جائے تب کوئی بھی شہری چیلینج کرسکتا ہے۔
تفصیلات کے مطابق وفاقی وزیر برائے قانون اعظم نذیر تارڑ کا مزید کہنا تھا کہ بہت سی قیاس آرائیاں ہورہی ہیں آج حکومتی اتحادیوں نے اعلامیہ جاری کیا ہے بڑا افسوس ہے کہ ایک غیر معمولی کام عدالت اعظمیٰ کی طرف سے کیا گیا ۔سپریم کورٹ پریکٹس اور پروسیجر بل منظور کرکے صدر کو بھجوا یا وہ واپس آیا اس کے بعد مشترکہ اجلاس سے پاس ہوا اب صدر کے پاس دوبارہ بھیجا گیا انیس یا بیس اپریل تک وہ قانون بنے گا۔ ابھی وہ ایکٹ نہیں بنا قانون نہیں بنا مگر ایک درخواست سپریم کورٹ میں دائر کردی گئی 8رکنی بینچ بھی بنا دیا گیا یہ کبھی نہیں ہوا کہ قانون سے پہلے اسے سنا جائے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جو بنچ بنایا گیا وہ سب کے سامنے ہے حالانکہ پہلے بھی ہم نے فل کورٹ کا مطالبہ کیا تھا مگر پہلے بھی ہمارا اور بار کونسلز کا مطالبہ نہیں مانا گیا۔ پنجاب خیبرپختونخوا میں الیکشن کے حوالے سے درخواستیں چار تین سے مسترد ہوئی تھیں جو کچھ اب ہورہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے جو 8رکنی بنایا گیا یہ پک اینڈ چوز ہے،کوئی سئنیر جج اس میں شامل نہیں ہے،چیف جسٹس اس بنچ کی سربراہی نہ کریں کیونکہ قانون ان سے متعلق ہے۔
اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل سمیت کئی بار کونسلز نے پری میچور بنچ کی مخالفت کی،قانون سازی کو انا کا مسئلہ بنالیا گیا ہے،ٹکراؤ کی کیفیت ہے،پارلیمنٹ کی طرف سے کوئی ٹکراؤ نہیں ہے۔ قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے،عوام کے حق پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنے دینگے،پارلیمان کو قانون سازی سے کوئی نہیں روک سکتا،نہ قدغن برداشت ہے،موجودہ بنچ قبول نہیں قانون بننے سے پہلے یہ کرنا مسترد کرتے ہیں،قانون سازی میں اداروں کی مخالفت بھی قبول نہیں۔
وزیراعظم کے خصوصی مشیر اور پیپلز پارٹی کے رہنما قمرزمان کائرہ نے کہا کہ بل ابھی پارلیمنٹ کے پاس ہے صدر اس کا حصہ ہے فائنل رائے نہیں دی مگر عدالت نے ٹیک آپ کرلیا، انہوں نے سوال کیا کہ کیا عدالت پارلیمنٹ کو اس کے اختیارات سے روکنا چاہتی ہے؟ہم یہ قبول کرلیں گے ایسا ہرگز نہیں ہوگا،بینچ بنا کر پارلیمنٹ کو روکنا قبول نہیں،ہر عذاب برداشت کرنے کو تیار ہیں۔ماضی کے فیصلوں کی تلافی کریں اور فل کورٹ بنائیں۔ہمین توہین عدالت سے نہ ڈرایا جائے۔ ہم عدالت سے لڑائی نہیں چاہتے،ڈھٹائی انا اور ضد کا مظاہرہ نہ کیا جائے۔اس بنچ کو دیکھ کر سب تاثر سمجھ آجا تا ہے اس بنچ کو توڑا جائے ورنہ ہم قبول نہیں کرینگے۔
جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میرا تعلق پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ دونوں سے ہے۔بنچ کی تشکیل دیکھ کر حیرانگی ہوئی۔قانون ابھی تک نہیں بنا مگر وقت سے پہلے چیلنج اور فکس کردیا گیا۔انہوں نے سپریم کورٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کئی کیسز سالوں سے پڑے ہیں وہ ابھی تک فکس نہیں ہوئے نمبرز بھی الاٹ نہیں۔ انہوں نے سوال کیا کہ سپریم کورٹ ججز کی تعداد پندرہ ہے اپیل کا حق کیسے استعمال ہوگا ؟ہماراجونییر ججز پر اعتراض تھا وہ آؤٹ آف ٹرن آجاتے ہیں اس بنچ میں جونیر ججز شامل ہیں۔حکومت کو اب اس پر تکلیف تو ہوگی۔ مقدمات فکس کرنے کا کوئی معیار ہونا چاہیے۔ہم نے اس قانون میں کون سی بری بات کی جو فوری اس کا نوٹس لے لیا گیا۔جے یو آئی ف اس بنچ کو مسترد کرتی ہے۔
اے این پی کے رہنما میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ صدر نے بل پر اعتراض کیا پارلیمنٹ نے پھر پاس کیا اور اب عدالت نے نوٹس لے لیا۔یہ سب ملی بھگت نظر آتی ہے ۔صدر عارف علوی پاکستان کا نہیں تحریک انصاف کا صدر ہے۔پارلیمنٹ کے خلاف سازش کی جارہی ہے،مرضی کے ججز کا بنچ بنادیا گیا کیونکہ 15سے 8جج چیف جسٹس کی مٹھی میں ہے۔ فل کورٹ بنائی جائے اس سے کیوں ڈرتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ ججز کے اختیارات میں کوئی مداخلت نہیں کی جارہی،نیا قانون توازن کےلیے ہے۔اکیلا چیف جسٹس سپریم کورٹ نہیں ہے سارے ججز مل کر سپریم کورٹ بنتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک گہری سازش ہے ہم کوئی شب خوں مار کر نہیں آئے پھر بھی ان کو برا لگا۔پارلیمنٹ سپریم ہے اور اس کے اختیارات کو ماننا ہوگا۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے وفاقی وزیر امین الحق کا کہنا تھا کہ تمام سیاسی جماعتیں حکومت کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتی ہیں ۔ہم آئین کے تحفظ اور پارلیمنٹ کی بالادستی کےلیے ایک ہیں۔ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبداری ضروری ہے۔ہر صورت میں پارلیمنٹ کی قانون سازی نہیں روکی جاسکتی ۔فل کورٹ بنائی جائے انصاف کا پلڑا برابر کیا جائے۔
سینیٹر طاہر بزنجو کا کہنا تھا کہ جب قانون بنا ہی نہیں اور اسے چیلنج کرنے کا کیا جواز ہے ۔ سپریم کورٹ کا سلیکٹو بنچ آگ پر تیل ڈالنے کے مترادف ہے۔بنچ میں تمام وفاقی اکائیوں کو شامل کیا جائے۔
وزیر مملکت ہاشم نوتیزئی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بی این پی آئین اور جمہوری نظام پر یقین رکھتی ہے لیکن آج سپریم کورٹ خود سے انصاف کی خلاف ورزی کررہی ہے ۔اگرفل کورٹ ہوتا تو متنازعہ باتیں نہ ہوتیں۔پارلیمنٹ کی بالادستی پر کوئی سمجھوتا نہیں ہے۔قانون بننےسے قبل شور مچانا افسوسناک ہے۔کیا بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے ججز پر یقین نہیں ہے جو انھیں شامل نہیں کیا گیا۔