ایک نیوز : خدا خدا کر کے جی 20 کے ہنگامہ ہائے میزبانی کا اختتام ہو گیا۔ لیکن نتیجہ صرف یہ نکلا کہ کھایا پیا ،، ہضم کیا ۔۔۔ مودی حکومت نے اپنی ذاتی پروجیکشن کے علاوہ خوشامد کی انتہا کرتے ہوئے سربراہان مملکت اور جی 20 نمائندوں کو ایک خصوصی تحائف کا ہیمپر بھی پیش کیا ہے ۔
ان تحائف کو ساگوان لکڑی کی کھدائی اور نقش ونگار والے باکس میں پیش کیا گیا ہے ۔
جس میں سندر بن کے جنگلات کا خالص شہد، کشمیر کا خالص زعفران، کشمیری پشمینہ کے شال،ہاتھ سے بنے کھدر کے علاوہ، قنوج کے خالص قیمتی عطربھی شامل ہیں۔ ان اشیا کو پیپر ماشی کے خصوصی بکس میں بند کرکے پیش کیا گیا۔
اسی طرح سربراہان مملکت کے بیگمات اول کے لئے بھی خالص ریشم سے بنی ساڑھیاں اور کپڑے پیش کئے گئے۔
شرکا کو دارجیلنگ چائے اور نیل گری چائے کے علاوہ انڈین کافی کے ڈبے بھی پیش کئے گئے ۔
سربراہان مملکت کو جی 20 کانفرنس کے موقع پر ریزرو بنک آف انڈیا کی جانب سے جاری کئے گئے چار خصوصی سکے بھی پیش کئے گئے۔
جنوری سے جاری اس اجلاس کا مقصد یوں تو رکن ممالک کے درمیان تجارتی و معاشی تعاون کا تھا، تاہم بھارت جن جن شہروں میں اس کے اجلاس ہوئے وہاں غربت کو پردوں و دیواروں سے ڈھک دیا گیا۔
جی 20 کے کچھ اجلاس ہنوز باقی ہیں جو اس ماہ کے اخیر تک ہونے ہیں، لیکن ان کی اہمیت فالو اَپ سے زیادہ کی نہیں جن میں مالیاتی خطوط پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کے عملی اقدام و نتائج کا جائزہ لیا جائے گا۔
مہمانان کے لیے سونے و چاندی کے برتنوں میں ضیافت کے اخراجات بھی شامل ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ضیافت کا یہ نمونہ اس ملک نے پیش کیا ہے جس کے یہاں کل آبادی کے 60 فیصد لوگ یعنی 140 کروڑ میں سے 80 کروڑ لوگ اپنا پیٹ بھرنے کے لیے حکومت کی جانب سے دیئے جانے والے مفت سرکاری راشن کے محتاج ہیں اور جہاں اناج پیدا کرنے والے کسان خود کشی کرنے پر مجبور ہیں
مودی حکومت نے 28 امریکی اشیاء جن میں مختلف زرعی پیداوار بھی شامل ہے، ان پر سے درآمد کی ڈیوٹی کم کر دی جو 2019 میں اس نے بڑھایا تھا۔ اب اس کے بعد ہوگا یہ کہ جو بھی زرعی پیداوار امریکہ سے درآمد ہوگا وہ سستا ہوگا جس کا براہ راست نقصان بھارتی کسانوں کو ہوگا۔