ایک نیوز: حکومت پرمعاشی بحران کے باعث اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھنے لگا۔ حکومت نے خسارے میں جانیوالے سرکاری اداروں کی تنخواہوں کی ادائیگی کیلئے مزید قرض لینے کا فیصلہ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق حکومت نے مجموعی طور پر لیے جانے والے قرضوں کا ہدف سات ٹریلین روپے مقررکیا ہے ۔ان قرضوں کا بڑا حصہ یعنی 5.5 ٹریلین روپے مالیاتی اداروں سے لیے گئے ۔پہلے قرضوں پر سود کی مد میں ادا کردیا جائے گا۔
عارف حبیب لمیٹڈکے ہیڈ آف ریسرچ طاہر عباس کا کہناتھاکہ آئی ایم ایف کی طرف سے قرضہ پروگرام کی بحالی میں تاخیر کی وجہ سے حکومت پر اندرونی قرضوں کا بوجھ بڑھتا جارہاہے۔ حکومتی اخراجات میں سب سے بڑا حصہ اب قرضوں پر سود کی ادائیگی ہوتا ہے۔
دوہفتے قبل موڈیز کا کہنا تھا کہ پاکستان مالی سال 2023ء میں اپنی آمدنی کے نصف سے زیادہ صرف سود کی ادائیگی پر صرف کریگا۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے مارچ میں پالیسی ریٹ 300 بیسز پوانٹس بڑھا کرشرح سود کو20 فیصد کردیا گیاہے ۔جس سے حکومت کیلئے کمرشل بینکوں سے مزید قرضہ لینا بھی مشکل ہوگیا ہے۔ اس سال تک حکومت نے کمرشل بینکوں سے سب سے زیادہ قرضے لے رکھے ہیں۔ملک کے دفاعی اخراجات کے علاوہ سبسڈیز اور سوشل اخراجات بھی بڑا درد سربن چکے ہیں۔
الفا بیٹا کورہیڈ آف ریسرچ خرم شہزاد کاکہناتھاکہ روپے کی قدر میں حالیہ کمی کے بعد بیرونی قرضوں کے حجم مزید کوئی نئے قرضے لیے بغیر ہی بڑھ گیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں ملکی کرنسی کی قدر میں 10روپے کمی سے ملک پر قرضوں کا بوجھ 1.3 ٹریلین روپے بڑھ جاتا ہے۔یوں جولائی 2022ء سے جنوری 2023ء تک قرضوں میں 55 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوچکاہے۔
حکومت پاکستان کمرشل بینکوں سے اب نئے قرضے ٹی بلز اور پاکستان انویسٹمنٹ بانڈزPIBs))کی فروخت سے حاصل کریگی۔لیکن آئی ایم ایف اپنے 6.5 ارب ڈالر کے قرضہ پروگرام کی بحالی کیلئے ایسے قرضوں کی ممانعت کرچکا ہے۔ حکومت نے ٹیکسوں میں اضافہ کرکے اپنی آمدنی بڑھائی توہے۔ لیکن پبلک سیکٹر ترقیاتی پروگرام میں بھاری کٹوتی کے باوجود بجٹ اخراجات پر قابو نہیں پایا جارہا۔