ایک نیوز:سینیٹ میں حکومت نے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود چار بلز کی منظوری دی اوردو آرڈینینسز پیش کئے ، اپوزیشن نے ایوان بالا کی قائمہ کمیٹیوں سے متعلق حکومتی پالیسی مسترد کرتے ہوئے قائمہ کمیٹیوں سے بائیکاٹ کی دھمکی دی اور قانون سازی پر ایوان سے واک آوٹ بھی کیا۔
سینیٹ اجلاس کی صدارت چیئرمین یوسف رضا گیلانی نے کی۔سینیٹ میں پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن ترمیمی بل 2024 پیش کیا گیا تو اپوزیشن نے اس کی مخالفت کی، شبلی فراز اور علی ظفر نے مطالبہ کیا کہ بل متعلقہ کمیٹی کو بھجوایا جائیں، حکومت نے اپوزیشن کی مخالفت کے باوجود چار بل پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن ترمیمی بل 2024،پاکستان پوسٹل سروسز مینجمنٹ بورڈ ترمیمی میں بل 2024 ،نیشنل ہائی وے اتھارٹی ترمیمی بل 2024 کثرت رائے سے منظور کرا لئے۔
تین بل اپوزیشن کی غیر موجودگی میں منظور کیے گئے، چاروں بل وفاقی وزیر قانون سینیٹر اعظم نذیر تارڑ نے پیش کیے، ایوان میں اعظم نذیر تارڑ نے انتخابات ترمیمی آرڈیننس اور قومی احتساب ترمیمی آرڈیننس بھی ایوان میں پیش کیے۔
سیف اللہ ابڑو اور کامران مرتضیٰ کے توجہ دلاؤ نوٹس پر وزیر توانائی اویس لغاری نے بتایا کہ سوائے نندی پور کے باقی پلانٹس تباہ ہیں۔ تین پاور پلانٹس پر چینی قرضوں کی بات درست نہیں ہے۔
یہ تین پاور پلانٹس ابھی تک سسٹم میں نہیں آئے۔آئی پی پیز سے متعلق پوری بریفنگ دینے کو تیار ہوں۔اویس لغاری نے کہا کہ ان پاور پلانٹس کے ریٹس موجودہ پلانٹس سے بہت بہتر ہیں۔
اویس لغاری کا کہنا تھا کہ ان پاور پلانٹس کوبہتر بنا کر جائیں گے۔ ایوان بالا کی قائمہ کمیٹیوں کے معاملہ پر بھی حکومت اور اپوزیشن کا آمنا سامنا رہا۔
شبلی فراز نے کہا کہ اگر حکومت قائمہ کمیٹیوں پر بھی الیکشن کروائے گی تو اپوزیشن بائیکاٹ کرنے پر مجبور ہوگی، قائمہ کمیٹیوں کی تشکیل میں افہام و تفہیم سے کام لیا جائے۔
شیری رحمان نے شبلی فراز کے ریمارکس پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ان کی عددی حصہ کے مطابق ہی کمیٹیوں میں حصہ ملتا ہے، کسی کو بائیکاٹ کا شوق ہے تو پورا کرلیں، ماضی میں یہ تلخ تجربہ آزما چکے ہیں۔
اے این پی کے ایمل ولی نے کہا کہ قانون سازی کا ہر عمل قائمہ کمیٹیوں کو بھجوایا جائے۔