ایک نیوز:ایوان بالا میں 9 مئی کے پرتشدد واقعات پر متفقہ طور پر مذمتی قرارداد منظور کر لی گئی۔
چیئر مین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت بجٹ اجلاس میں اپوزیشن کا شور شرابہ،سینیٹرز کا آصف کرمانی کی تقریر کے دوران شدید احتجاج کیا۔نعرے بازی بھی کرتے رہے۔جبکہ اپوزیشن نے نئی مالی سال کے بجٹ کو غریب کش قرار دے کر مسترد کر دیا۔
چیئرمین صادق سنجرانی کی زیرصدارت سینیٹ اجلاس ہوا، چئیرمین سینیٹ اور اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات کا بل ایوان میں وزیر مملکت برائے قانون شہادت اعوان نے پیش کیا جسے متعلقہ کمیٹی کے سپرد کر دیا گیا۔
9 مئی کے پرتشدد واقعات پر متفقہ طور پر مذمتی قرارداد شہادت اعوان نے پیش کی، جس میں کہا گیا کہ 9 مئی کو جناح ہاوس، ریڈیو پاکستان اور دیگر واقعات کی مذمت کرتے ہیں، واقعے میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا گیا۔
مذمتی قرارداد میں کہا گیا کہ پاک فوج کے شہداء پاکستان کا فخر ہیں۔
آصف کرمانی نےاپوزیشن کو تنقید کانشانہ بناتے ہوئے کہا کہ قائد حزب اختلاف سے سوال ہے 50 لاکھ اور 1 کروڑ نوکری کا کیا معاملہ ہوا؟ شوکت ترین اپنے وزراء کو کہہ رہے تھے کہ آئی ایم ایف کو کہو کہ حکومت کو سنبھالا نہ دے۔ ان کا پارٹی چیئرمین سیاسی قوت سے بات کرنے کو تیار نہیں، بات آرمی چیف سے کرنی ہے جو ان سے بات کرنے کو تیار نہیں۔ پاک فوج ہماری ریڈ لائن ہے جس پر حملہ کرکے انہوں نے اپنا فاشست چہرہ دیکھایا۔ 9 مئی کا حساب دو، قائد اعظم پر حملے کا جواب دو۔
آصف کرمانی کی تقریر پر پی ٹی آئی اراکین نے ہنگامہ کھڑا کر دیا، تلخ جملوں کا تبادلہ بھی ہوا جبکہ چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے معاملہ رفع دفع کر دیا۔
ایوان میں پیش کردہ بجٹ پر بحث کا آغازکرتے ہوئے قائد حزب اختلاف شہزاد وسیم کاکہنا تھا کہ بجٹ میں اعداد کا گورکھ دھندا اور الفاظ کی ہیرا پھیری ہے، حکومت نے بجٹ میں جو خواب دکھائے اس کی کوئی تعبیر نہیں، 13 جماعتوں پر مشتمل نام نہاد تجربہ کار حکومت ہر شعبے میں ناکام ہوئی ہے، ایک سال میں جی ڈی پی 6 فیصد سے 0.29 پر لے آئے ہیں، بدترین مہنگائی ہے، مہنگائی کی شرح 48 فیصد ہوچکی ہے۔
وفاقی وزیرقانون اعظم نذیرتارڑکا کہنا تھا کہ اتحادی حکومت نے وسیع ترقومی مفاد میں سکڑتی معیشت کو سہارا دیا، معاشی ٹیم نے جس قدر ہوسکا عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی، 9 مئی کے واقعات ایک دن میں نہیں ہوئے،، اس کے پیچھے پلاننگ کی گئی۔
سینیٹر ولید اقبال نے کہا کہ سب کو نظر آرہا ہے یہ ایک بھکاری قوم کا بجٹ ہے، بجٹ تو پیش ہوگیا لیکن پیسے موجود نہیں۔
سینیٹر طاہر بزنجو نے کہا کہ بجٹ میں مجھے بلوچستان کے لیے کچھ نظر نہیں آیا۔
بجٹ پر بحث جاری تھی کہ اجلاس منگل کی سہ پہر 3 بجے تک ملتوی کر دیا گیا۔