ایک نیوز: پاکستان نے وسطی ایشیاء کے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات مضبوط کرنے کی جانب بڑا قدم اٹھا لیا۔ نیشنل لوجسٹک سیل (این ایل سی) کے ٹرکوں کا قافلہ تجارتی سامان لے کر افغانستان کے راستے ازبکستان اور قازقستان پہنچ گیا۔
تفصیلات کے مطابق نیشنل لاجسٹکس سیل(این ایل سی) نے افغانستان کے راستے ازبکستان اور قازقستان تک برآمدی سامان کی کامیابی کے ساتھ ترسیل کرکے ایک اور اہم سنگ میل طے کر لیا۔ یہ کامیابی علاقائی رابطوں کو بڑھا کر وسطی ایشیا میں نئی منڈیوں کو تلاش کرنے کی حکومت کی پالیسی کا حصہ ہے۔
بتایا گیا ہے کہ دیگر ذرائع کی بہ نسبت انٹرنیشنل روڈ ٹرانسپورٹ (ٹی آئی آر) کے نظام سے ٹرانزٹ کے وقت میں 70-80 فیصد کی نمایاں کمی واقع ہوتی ہے۔ کراچی، لاہور، فیصل آباد اور پشاور سے تجارتی سامان لے جانے والے 40 فٹ کنٹینرز سے لدے این ایل سی کے آٹھ ٹرکوں کے قافلے نے تاشقند (ازبکستان)، الماتے اور آستانہ (قازقستان) کا سفر شروع کیا تھا۔
ٹرکوں نے کراچی سے الماتے اور آستانہ تک بالترتیب 3800 اور 4600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا۔ اسی طرح کراچی سے تاشقند تک 3000 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا گیا۔ واپسی پر یہ گاڑیاں درآمدی کارگو لے کر پاکستان پہنچیں گی۔ وسطی ایشیا میں این ایل سی کے ٹی آئی آر آپریشنز سرحدوں پر ٹرکوں کے تبادلے کی ضرورت کو ختم کرتے ہوئے، ون ونڈو حل فراہم کرتا ہے۔
یہ برآمد کنندگان اور درآمد کنندگان کے لیے انتہائی فائدہ مند ثابت ہوتاہے، جس سے متعدد پیچیدگیوں اور سرحدی دستاویزات کے عمل کو آسان بنا کر کاروبار کرنے کی لاگت میں نمایاں طور پر کمی واقع ہوتی ہے۔ مزید برآں، یہ ٹرانزٹ ٹائم کو کم کرنے کے ساتھ ڈیمریج چارجز کو ختم اور سرحد پار تجارت سے وابستہ عمومی مسائل کو دور کرتا ہے۔
این ایل سی کے لیے یہ بہت فخر کا لمحہ ہے کیونکہ پاکستان اور قازقستان کے درمیان دوطرفہ ٹرانسپورٹ معاہدے کے تحت پہلی بار پاکستانی ٹرک قازقستان میں داخل ہوئے۔ دونوں ممالک کے مابین اس معاہدہ پر 1995 میں دستخط ہوئے جس کا عملی نفاذ اس سال ممکن ہوا۔
بین الاقوامی روڈ یونین، قازقستان میں پاکستانی سفارتخانے اور تینوں ممالک کی کاروباری برادری نے بذریعہ زمینی راستے سامان کی ترسیل کوخوش آئند قرار دیتے ہوئے این ایل سی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔
مال برداری کے لئے ٹی آئی آر کے استعمال سے قیمتی زرمبادلہ کی بچت ہوگی کیونکہ نقل و حمل کے اخراجات کی ادائیگی پاکستانی کرنسی میں ہوتی ہے۔ اس نظام کے نفاذ سے لاجسٹکس پرفارمنس انڈیکس میں پاکستان کی درجہ بندی کو بھی بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔