تاہم کولمبو میں بھارتی ہائی کمیشن نے ان خبروں کی تردید کی ہے ۔
رپورٹ کے مطابق سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پکسے نے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ہے۔ انہوں نے وزیر اعظم کو بتایا کہ وہ بدھ کو اس عہدے سے استعفی دے دیں گے۔ جس کے بعد وزیراعظم رانیل وکرما سنگھے نے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کیا ہے۔ تاکہ اتحادی حکومت ملک کو اس معاشی بحران سے نکالنے کی کوشش کر سکے۔ تباہ حال عوام نے مہنگائی، افراط زر اور غربت جیسے اقتصادی بحران کی وجہ حکومتی نااہلی کو قرار دیا ہے۔ جس کی وجہ سے چند روز قبل مظاہرین نے کولمبو میں واقع صدر اور وزیر اعظم کی سرکاری رہائش گاہوں پر دھاوا بول دیا تھا ۔ سری لنکا میں حزب اختلاف کے رہنماؤں کی جانب سے تاحال صدر گوٹابیا راج پکشے اور وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کے متبادل پر اتفاق نہیں کیا۔
واضع رہے کہ گذشتہ ہفتے مظاہرین نے صدر گوٹابیا راج پکشے کے گھر، ان کے سمندر کے کنارے واقع دفتر اور وزیر اعظم رانیل وکرما سنگھے کی سرکاری رہائش گاہ پر قبضہ کر لیا تھا اور مطالبہ کیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں۔ کہ مظاہرین نے استعفوں کی سرکاری منظوری تک صدر اور وزیراعظم کی رہائش گاہوں میں موجود رہنے کا عہد کیا ہے۔
گذشتہ روز ایک ویڈیو بیان میں وزیراعظم کا کہنا تھا اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ اس وقت تک عہدے پر رہیں گے جب تک نئی حکومت قائم نہیں ہو جاتی کیونکہ وہ آئین کے اندر کام کرنا چاہتے ہیں۔
۔ کئی مہینوں کے مظاہروں نے گوٹابیا راج پکشے کی خاندانی سیاست کو ختم کردیا ہے جس نے گذشتہ دو دہائیوں میں سری لنکا پر حکومت کی ہے۔ جب ہزاروں افراد نے سری لنکا میں صدر اور وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہوں پر دھاوا بولا تو خبریں گردش کر رہی تھیں کہ ہمسایہ ملک کی مدد کے لیے بھارت اپنی فوج بھیج رہا ہے لیکن کولمبو میں بھارتی ہائی کمیشن نے ان کی تردید کر دی ہے۔ سری لنکا کا واحد قریبی پڑوسی ملک بھارت بحران کے دوران غیر ملکی امداد کا بنیادی ذریعہ رہا ہے جس نے ان کو 3.8 ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔سری لنکا کی قومی امن کونسل کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر جہان پریرا کا کہنا ہے کہ بھارت کو سری لنکا کی معاشی حمایت جاری رکھنی چاہیے۔ بھارت کو اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ عوام کے جمہوری حقوق کا احترام کیا جائے جس میں ناکام حکومت کے خلاف احتجاج کا حق بھی شامل ہے۔