ویب ڈیسک: روس نے یمن کے حوثی باغیوں پر امریکا اور برطانیہ کی جانب سے رات گئے فضائی حملوں کی شدید مذمت کی ہے۔
روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریا زاخارووا نے بتایا کہ روس کے خدشات درست ثابت ہوئے ، ان کا موقف تھا کہ بحری جہازوں پر حوثیوں کے حملوں کے خلاف امریکی سرپرستی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد پر اس ہفتے کے شروع میں بحث کے دوران کہی گئی تھی کہ اس دستاویز کی "غلط تشریح" کی جائے گی اور "غیر قانونی اقدامات" کو جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
ماسکو میں پریس بریفنگ کے دوران ان کا کہنا تھا کہ "ہمارے اندیشوں کی تصدیق ہو گئی ہے کہ بحیرہ احمر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی مؤقف خطے میں کشیدگی کو مزید بڑھانے کا صرف ایک بہانہ ہے۔ ہم امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے اقدامات کی شدید مذمت کرتے ہیں۔"
"جیسا کہ ہم نے خبردار کیا تھا، اپنی جارحیت کا جواز پیش کرنے کے لیے، اینگلو سیکسن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 2722 کو استعمال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو ایک دن پہلے بحیرہ احمر میں نیویگیشن کی حفاظت کو یقینی بنانے کے بہانے اپنایا گیا تھا،"
انہوں نے کہا کہ "امریکی ایک طویل عرصے سے بین الاقوامی قانون کے خلاف غیر قانونی ہتھکنڈے استعمال کر رہے ہیں۔"
انہوں نے کہا کہ مغرب پہلے بھی عراق اور لیبیا میں "مجرمانہ کارروائیاں" کرنے کے لیے "اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے فیصلوں کی غلط تشریحات" کا استعمال کرچکا ہے۔
یادرہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں روس کے مندوب نے آج بحیرہ احمر میں حوثیوں کے بحری جہازوں پر حملوں کے جواب میں یمن پر برطانیہ اور امریکہ کے حملوں کو زیربحث لانے کے لئے ایک ہنگامی اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ایران کی امریکی اور برطانوی جنگی طیاروں کے یمن پر حملوں کی مذّمت:
ایران کی سرکاری خبر ایجنسی IRNA کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی نے موضوع سے متعلق تحریری بیان جاری کیا ہے۔
بیان میں کنعانی نے کہا ہے کہ " ہم یمن کے مختلف شہروں پر امریکی اور برطانوی عسکری حملوں کی شدید مذّمت کرتے ہیں"۔
انہوں نے حملوں کو یمن کی خود مختاری ،زمینی سالمیت اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا اور کہا ہے کہ "یہ حملے علاقے کو غیر محفوظ کر نے اور عدم استحکام کو ہوا دینے کے علاوہ اور کسی کام نہیں آئیں گے۔ ہمارا بین الاقوامی برادری سے مطالبہ ہے کہ ذمہ دارانہ ردعمل اور اقدامات کے ساتھ علاقے میں جنگ اور عدم استحکام کے پھیلاو پر قابو پایا جائے۔
یاد رہے کہ امریکہ اور برطانیہ نے یمن کے حوثی باغیوں کے عسکری ٹھکانوں پر جمعرات کی شب فضائی اور بحری راستوں سے حملے کیے ہیں اور خبردار کیا ہے کہ اگر حوثی بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو نشانہ بنانے سے باز نہ آئے تو انہیں دوبارہ نشانہ بنایا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق یمن نے ملک کے مختلف شہروں میں حملوں کی تصدیق کی گئی ہے جب کہ امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے جمعرات کی شب ایک بیان میں کہا کہ یہ حملے واضح پیغام ہیں کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اپنے فوجیوں اور بحیرۂ احمر کے راستے ہونے والی تجارت پر حوثیوں کے حملوں کو برداشت نہیں کریں گے۔
امریکہ کے وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے بھی ایک بیان میں کہا ہے کہ حملوں میں حوثیوں کے عسکری ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے جن میں خاص طور پر ان کے ڈرونز، بیلسٹک، کروز میزائل، کوسٹل راڈار اور ایئر سرویلیئنس کی تنصیبات شامل ہیں۔
حوثیوں نے بھی تصدیق کی ہے کہ دارالحکومت صنعا سمیت سعدہ، ذمار اور الحدیدہ میں حملے ہوئے ہیں جسے حوثی امریکہ، اسرائیل اور برطانیہ کی جارحیت قرار دے رہے ہیں۔
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ امریکہ اور برطانیہ کے حملوں میں صنعا اور تعز ایئرپورٹ کے قریب فوجی بیسز سمیت الحدیدہ شہر میں واقع نیول بیس اور حاجہ میں فوجی تنصیب کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
جمعے کی صبح صنعا میں چار دھماکوں کی آوازیں سنی گئی ہیں جب کہ الحدیدہ شہر میں دو مقامی افراد نے بتایا ہے کہ انہوں نے بحیرۂ احمر کے قریب ساحلی علاقے میں پانچ دھماکوں کی آوازیں سنی ہیں۔
امریکہ نے کہا ہے کہ آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور نیدرلینڈز کے تعاون سے حوثیوں کے خلاف آپریشن کیا گیا ہے۔
برطانوی وزیرِاعظم رشی سوناک نے بھی ایک الگ بیان میں کہا ہے کہ برطانوی رائل ایئر فورس نے حوثیوں کے زیرِاستعمال فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ نے امریکہ کے ساتھ مل کر اپنے دفاع میں محدود، ضروری اور متناسب جوابی حملہ کیا ہے تاہم اس کارروائی میں نیدرلینڈز، کینیڈا اور بحرین کی کسی بھی قسم کی آپریشنل سپورٹ نہیں تھی۔
برطانوی وزیرِاعظم کے مطابق ان حملوں کا مقصد حوثیوں کی عسکری صلاحیت کو کم کرنا اور عالمی تجارت کا تحفظ ہے۔
واضح رہے کہ حوثی باغی یمن کے ایک حصے پر قابض ہیں اور حالیہ عرصے کے دوران انہوں نے بحیرۂ احمر میں کئی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا تھا جس کے بعد کئی بین الاقوامی شپنگ کمپنیوں نے اس بحری راستے سے تجارت معطل کر دی ہے۔
حوثیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے حملے اسرائیل کی غزہ میں جاری جنگ کے خلاف ہیں اور یہ حملے اس وقت تک نہیں روکے جائیں گے جب تک اسرائیل غزہ میں اپنی کارروائی نہیں روک دیتا۔
برطانوی وزارتِ دفاع کے مطابق جمعرات کی شب چار لڑاکا طیاروں نے قبرص سے اڑان بھر کر حوثیوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے۔
یمن میں امریکہ اور برطانیہ کے حملوں کے بعد سعودی عرب نے ایک بیان میں تحمل کا مظاہرہ کرنے اور معاملے کو بڑھنے سے گریز کرنے پر زور دیا ہے۔
یمن میں امریکہ اور برطانیہ کے حملوں سے چند گھنٹے قبل امریکی فوج نے کہا تھا کہ حوثیوں نے خلیجِ عدن میں اینٹی شپ بیلسٹک میزائل فائر کیا تھا۔
دو روز قبل یعنی نو جنوری کو ہی امریکہ اور برطانیہ کی نیول فورسز نے حوثیوں کے 21 ڈرونز اور میزائل مار گرائے تھے جب کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے ان حملوں کو امریکہ جہازوں پر براہِ راست حملہ قرار دیا تھا۔
حوثیوں کے اعلیٰ عہدیدار الی القہوم نے سماجی رابطے کی سائٹ 'ایکس' پر جاری ایک بیان میں جوابی حملوں کا عزم کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ جنگ امریکہ اور برطانیہ کے تصورات اور توقعات سے بڑھ کر مزید پھیلے گی۔
بحیرہ احمر صورتحال پر امریکی اتحاد کا بیان:
بجیرہ احمر میں حوثی انصاراللہ کے خلاف امریکہ کہ زیر قیادت آپریشن پراسپریٹی جاری ہے۔ بحیرہ احمر میں موجود امریکی اتحاد میں شامل ممالک نے مشترکہ بیان جاری کیا ہے۔
امریکی اتحاد کے جاری کردہ بیان کے مطابق دسمبر 2023 کو دنیا بھر کے 44 ممالک نے اتفاق رائے کیا۔ 1 دسمبر 2023 کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے بیان میں بحیرہ احمر سے گزرنے والے تجارتی اور تجارتی جہازوں کے خلاف حوثیوں کے حملوں کی مذمت کی گئی۔ 3 جنوری کو ایک مشترکہ بیان میں غیر قانونی حملوں کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
اسی بیان میں خبردار کیا گیا تھا کہ اگر خطہ کے اہم آبی گزرگاہوں میں جانوں، عالمی معیشت اور تجارت کے آزادانہ بہاؤ کو خطرہ لاحق رہنے کی صورت میں نقصان دہ عناصر کو جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔ اس سخت انتباہ کے باوجود، بحیرہ احمر میں حملے جاری ہیں۔ 9 جنوری کو بحیرہ احمر میں امریکی و برطانوی بحری جہازوں کو متعدد میزائلوں اور ڈرونز سے نشانہ بنایا گیا۔
امریکی اتحاد کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ 10 جنوری کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے یو این ایس سی آر 2722 منظور کیا۔ اس نے بھی ان حملوں کی مذمت کی اور انہیں روکنے کا مطالبہ کیا۔ بحری جہازوں کے خلاف جاری غیر قانونی، خطرناک اور غیر مستحکم کرنے والے حوثی حملوں کے جواب میں، نیدرلینڈ، کینیڈا، بحرین اور آسٹریلیا کے تعاون سے امریکہ اور برطانیہ کی مسلح افواج نے مشترکہ آپریشن کیا۔
یمن کے حوثیوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں متعدد اہداف کے خلاف اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق انفرادی اور اجتماعی اپنے دفاع کے موروثی حق کے مطابق حملے کیے گئے۔ ان حملوں کا مقصد حوثیوں کی عالمی تجارت اور دنیا کی اہم ترین آبی گزرگاہ میں بین الاقوامی میرینرز کی زندگیوں کو خطرے میں ڈالنے کے لیے استعمال کی جانے والی صلاحیتوں کو کم کرنا تھا۔ نومبر کے وسط سے تجارتی جہازوں پر حوثیوں کے دو درجن سے زیادہ حملے ایک بین الاقوامی چیلنج ہیں۔
آج کی کارروائی نے نیویگیشن کی آزادی، بین الاقوامی تجارت اور غیر قانونی اور بلاجواز حملوں سے میرینرز کی زندگیوں کے دفاع کے لیے مشترکہ عزم کا اظہار کیا۔ ہمارا مقصد کشیدگی کو کم کرنا اور بحیرہ احمر میں استحکام کو بحال کرنا ہے۔
ہم دنیا کی سب سے نازک آبی گزرگاہوں میں سے ایک میں زندگیوں کے دفاع اور تجارت کے آزادانہ بہاؤ کی حفاظت کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔