گورنر پنجاب نے پرویز الہیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا

گورنر کے کہنے پر وزیراعلیٰ نے اعتماد کا ووٹ لے لیا،معاملہ حل ہوگیا، جسٹس عابد عزیزشیخ
کیپشن: On the request of the Governor, the Chief Minister took the vote of confidence, the matter was resolved, Justice Abid Aziz Sheikh(file photo)

ایک نیوز: گورنر پنجاب کا عدالت میں سرنڈر، پرویز الہیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔ لاہور ہائیکورٹ  نے پرویز الہیٰ کو وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر بحال کرتے ہوئے درخواست نمٹادی۔

     گورنر پنجاب کے وکیل منصور اعوان نے لاہور ہائیکورٹ کو آگاہ  کیا ہے کہ گورنر پنجاب بلیغ الرحمان سے رابطہ ہو گیا ہے ،انہوں نے اعتماد کے ووٹ کی تصدیق کردی ہے۔

  گورنر پنجاب   کے وکیل ایڈوکیٹ منصور اعوان نے مزید کہا  کہ   گورنر نے کنفرم کر دیا ہے کہ سپیکر کی رپورٹ موصول ہو گئی ہے۔ گورنر نے 22 دسمبر کواپنا حکم واپس لے لیا ہے۔اس آرڈر کے ذریعے پرویز الٰہی کو ڈی نوٹی فائی کیا گیا تھا۔ایسے میں درخواست کا جواز نہیں رہا ۔

 جسٹس عابد عزیز شیخ  نے ریمارکس دئیے کہ اعتماد کا ووٹ تو آپ نے لیا ہے۔ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم کہہ دیتے ہے کہ گورنر کا نوٹیفکیشن درست نہیں تھا ۔ اور پھر آپ  اسمبلی جا کر جو کرنا چاہیں وہ کریں ۔

عدالت نے مزید ریمارکس دئیے کہ آپ نے آرٹیکل 137 کے تحت ووٹ لیا ہے۔ اس کا مطلب ہے گورنر کا حکم درست تھا۔اگر گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا تو پھر تو آپ کے ووٹ لینے کا معاملہ کالعدم ہوجائےگا۔

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا آپ نے عدالت کو مطمئن کرنے کےلیے ووٹ نہیں بلکہ آرٹیکل  137 کے تحت ووٹ لیا ہے ۔ اگر دونوں فریقین اس  پررضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم جاری کردیتے ہیں کہ گورنر کا نوٹیفکیشن کالعدم ہوگا۔ اگر دونوں فریقین رضامندی ظاہر کرتے ہیں تو یہ حکم بھی جاری کردیتے ہیں کہ گورنر نے جو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا تھا وہ ٹیسٹ ہوگیا۔ 

جس پر وکیل گورنر نے موقف اپنایا کہ اس معاملے پر اتفاق رائے کی ضرورت نہیں ہے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے اپنی اسمبلی کے اندر یہ معاملہ حل کرلیا ہے جو اچھی چیز  ہے ۔ سب کچھ آئین اور قانون کے مطابق ہوگیا ہے۔ ہم تو چاہتے ہیں ایسے معاملات میں عدالت کی مداخلت کم سے کم ہونی چاہیے۔

لاہور ہائیکورٹ میں گورنر کے وزیر اعلی پنجاب اور کابینہ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت  ہوئی۔ جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دئیے کہ پرویز الٰہی نے اعتماد کا ووٹ لے لیا ہے۔پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ بن گیے اور کابینہ بحال ہو چکی ہے۔معاملہ عدالت میں آنے پر اسمبلی فلور پر حل ہوگیا ۔سارا کچھ آئین کے مطابق حل ہو گیا ۔

جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دئیے کہ گورنر نے آئین کے مطابق آرڈر جاری کیا ۔پرویز الٰہی نے گورنر کے آرڈر پر اعتماد کا ووٹ لے لیا ۔اگر سپیکر گورنر کی ایڈوائس پر اجلاس میں معاملہ حل کر لیتے تو آج ایسی صورت حال نہ  ہوتی۔ 

قبل ازیں  جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ کیا گورنر اعتماد کے ووٹ سے مطمئن ہیں، جس پر گورنر پنجاب کے وکیل نے کہا کہ اعتماد کے ووٹ کے ریکارڈ کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دینا چاہیے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے پرویز الٰہی کے وکیل سے پوچھا بیرسٹر علی ظفر، آپ کیا کہیں گے؟ فلور ٹیسٹ ہو گیا، کیا آپ اس درخواست کی سماعت پر زور دیں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں اس نکتے پر بریف دلائل دینا چاہتا ہوں، ہمارے پاس ووٹ موجود ہیں، یہ معاملہ اصول کا ہے، گورنر کو وجوہات دینا چاہیے تھیں۔

وکیل چوہدری پرویز الٰہی نے کہا بظاہر تو درخواست غیر مؤثر ہو گئی ہے، گورنر کا نوٹیفکیشن قانون کے مطابق نہیں تھا۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے ریمارکس دیے کہ ووٹ لینے کے بعد ایک معاملہ تو حل ہو گیا ہے، آرٹیکل 137 کے تحت اعتماد کا ووٹ لے لیا گیا ہے، اب معاملہ یہ رہ گیا ہے کہ گورنر کا نوٹیفکیشن ٹھیک تھا یا نہیں۔ 

جسٹس عاصم حفیظ نے کہا کہ اگر آپ یہ کہیں گےکہ گورنر کا حکم غیر قانونی ہےتو معاملہ آخر تک جائےگا جبکہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ اگر گورنر کے حکم کو دیکھنا ہے تو پھر ہمیں سب کچھ دیکھنا پڑے گا، آپ نے اس کا حل ٹھیک نکالا، گورنر کےاطمینان کے لیے اعتماد کا ووٹ لے لیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ کو ہٹائے جانے کا اقدام تو غیر قانونی تھا، جس پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ کیا عدالت اتفاق رائے سے ایک فیصلہ کر دے، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت اس پر اپنی فائنڈنگ دیدے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے کہا کہ  اب ہمارے پاس تین سوال ہیں، ایک سوال پر تو آپ نے اعتماد کا ووٹ لے لیا،  جس پر بیرسٹر علی ظفر نے کہا مناسب وقت کے دوسرے سوال پر میں عدالت کی معاونت کروں گا جبکہ جسٹس عابد عزیز  نے کہا کہ تیسرا سوال ہو گا سیشن نہ ہو تو کیا وزیر اعلیٰ کو اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر گھر بھیج سکتے ہیں۔ 

لاہور ہائیکورٹ نے کہا کہ گورنر کی جانب سے تاریخ مقرر کرنے کے نکتے کا سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے۔