ویب ڈیسک: سپریم کورٹ کے جسٹس مظاہرعلی اکبر نقوی ریفرنسز کے معاملے پر چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے ججز کو کھلا خط لکھا ہے۔
جسٹس مظاہر نقوی نے سپریم کورٹ کے ججز کے نام کھلے خط میں کہا کہ بطور سپریم کورٹ جج پاکستانی عوام کی خدمت کر رہا ہوں، سپریم جوڈیشل کونسل کی بوگس کارروائی کو چیلنج کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں، میری ساکھ نمایاں جبکہ میرے عہدے کی ساکھ اور بھی نمایاں ہے۔
مظاہر نقوی کا کہنا ہے کہ اس خط کا مقصد یہ باور کرانا ہے کہ یہ میری ذات کا نہیں بلکہ اصول کا معاملہ ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس سردار طارق مسعود نے سابق چیف جسٹس کو میرے خلاف کارروائی کرنے کے لیے خطوط لکھے۔
خط میں جسٹس مظاہر نقوی کاکہنا ہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھا گیا خط ظاہر کرتا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون کی کیسے خلاف ورزی کی جا رہی ہے، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر یہ بینچ تشکیل کیوں دیا؟ اس کا فیصلہ آپ جج صاحبان خود کریں۔
خط کے متن کے مطابق سپریم جوڈیشل کونسل میں میرے خلاف چلنے والے ریفرنس پر مس انفارمیشن حیران کن ہے، جج کو استثنیٰ کے باوجود اثاثے ڈکلیئر نہ ہونے کی بنیاد پر سپریم جوڈیشل کونسل میں کیوں گھسیٹا جا رہا ہے؟ کیا جج کےساتھ امتیازی سلوک کی کوئی قانونی یا اخلاقی وجہ ہے؟ جوڈیشل کونسل نے مجھے دوسرا شوکاز کرکے خود تسلیم کیا کہ پہلا شوکاز نوٹس غلط تھا، اس سے ثابت ہوتا ہے میرے خلاف کارروائی بنیادی معلومات کے بغیر شروع کی گئی، سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین اور ممبران کا میرے ساتھ رویہ توہین آمیز ہے، میں نے نومبر کے مہینے میں 9 کی اور دسمبر میں 2 ریکارڈ کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کو تحریری درخواستیں دیں اس کے باوجود میری درخواست نہیں سنی گئی۔
جسٹس مظاہر نقوی کا کہنا ہے کہ 11 دسمبر کو آدھی رات کے قریب سپریم جوڈیشل کونسل کے 14 دسمبر کے اجلاس کا نوٹس موصول ہوا، تاریخ میں پہلی بار یہ ہوا کہ سپریم کورٹ میں درخواستوں کے باوجود سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلایا گیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا اقدام ان کی میرے خلاف جانبداری ثابت کرنے کیلئے کافی ہے، ان کا میرے خلاف مقصد صاف اور پہلے سے ظاہر شدہ ہے، جسٹس مظاہر نقوی
خط کے متن کے مطابق میرا مسئلہ اب صرف ذاتی نہیں بلکہ ادارے کا مسئلہ ہے، کیا سپریم کورٹ کسی بھی چیز کیلئے کھڑی نہیں ہوگی؟
خیال رہے کہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے14 دسمبرکوسپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس بلالیا اور سیکرٹری سپریم جوڈیشل کونسل نے پانچوں ممبران کو نوٹس بھیج دیا۔