ایک نیوز:اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیل محفوظ کرتے ہوئے سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں باعزت بری کردیا۔
تفصیلات کے مطابق درخواست کی سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کی۔نیب پراسکیوشن کی ٹیم اور نواز شریف کے وکیل امجد پرویز عدالت میں موجود تھی۔
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز روسڑم پر آئے اور کہا کہ زیر کفالت کے ایک نکتے پر صرف بات کرنا چاہتا ہوں۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے دلائل مکمل ہوگئے اس پر انہوں ںے صرف ایک نکتے پر بات کرنا چاہی۔
عدالت نے پوچھا کیا نیب نے نواز شریف کے زیر کفالت سے متعلق کچھ ثابت کیا ہے؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ استغاثہ کے اسٹار گواہ واجد ضیاء نے اعتراف کیا تھا کہ زیر کفالت سے متعلق کوئی شواہد موجود نہیں ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب نے کوئی ثبوت دیا کہ اپیل کنندہ کے زیر کفالت کون تھے؟
امجد پرویز نے کہا کہ بے نامی کی تعریف سے متعلق مختلف عدالتی فیصلے موجود ہیں، ہم نے ٹرائل کورٹ کے سامنے بھی اعتراضات اٹھائے تھے۔ اس موقع پر امجد پرویز نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے مختلف حصے پڑھے۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کس بنیاد پر کہا گیا کہ ان شواہد کی بنیاد پر بار ثبوت نواز شریف پر منتقل ہوگیا ہے؟
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ پاناما کیس میں سپریم کورٹ میں حسین نواز کی دائر کردہ متفرق درخواستوں پر انحصار کیا گیا، اگر ان متفرق درخواستوں کو تسلیم ک لیا جائے تو پھر بھی ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف اسٹیل مل کے کبھی مالک رہے ہوں۔
نواز شریف کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ جن متفرق درخواستوں پر ٹرائل کورٹ نے انحصار کیا ان درخواستوں کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا، استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام ہوا تو شریک ملزم کے بیان پر انحصار نہیں کیا جاسکتا، حسین نواز نے ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ جائیداد کا والد سے تعلق نہیں، حسین نواز کے ٹی وی انٹرویو پر انحصار کیا گیا ہے، نواز شریف کی قومی اسمبلی میں تقریر پر بھی انحصار کیا گیا۔
امجد پرویز نے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے اور کہا کہ عدالتی فیصلے میں کہا گیا مقدمات میں ملزم کو معصوم سمجھا جاتا ہے، فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمات میں استغاثہ کو الزام ثابت کرنا ہوتے ہیں، فیصلوں کے مطابق بار ثبوت استغاثہ پر ہوتا ہے نہ کہ ملزم پر، ملزم کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کیلئے مجبور نہیں کیا جاسکتا، یہی قانون اثاثوں کے مقدمات میں بھی لاگو ہوا ہے۔
امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ ملکیت کو استغاثہ کو ثابت کرنا تھا استغاثہ نے ہی پبلک آفس ہولڈر ثابت کرنا تھا، استغاثہ کو آمدن سے زائد اثاثہ بھی ثابت کرنا تھا، نواز شریف کے خلاف زبانی یا دستاویزی کوئی شواہد موجود نہیں، بے نامی کا بار ثبوت تو ملزم پر منتقل ہوتا ہی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن نے آمدن اور اثاثوں کی قیمت بتانا تھی، پراسیکیوشن کو ثابت کرنا تھا کہ جن کے نام اثاثے ہیں وہ تو زیر کفالت ہیں، پراسیکیوشن کو ثابت کرنا تھا کہ بے نامی جائیداد بنائی گئی، اگر اس متعلق کوئی ثبوت نہیں دیا گیا تو یہ آمدن سے زائد اثاثوں کا کیس نہیں بنتا۔ یہ کہہ کر امجد پرویز نے دلائل مکمل کرلیے۔
نیب پراسکیوٹر نے دلائل کا آغاز کیا اور کہا کہ سپریم کورٹ نے 28 جولائی کے فیصلے میں ریفرنس تیار کرکے دائر کرنے کی ہدایت کی جس پر نیب نے اپنی تفتیش کی، اثاثہ جات کیس میں تفتیش کے دو تین طریقے ہی ہوتے ہیں، ہم نے جو شواہد جمع کیے وہ ریکارڈ کا حصہ ہیں اور اس میں 161 کے بیانات بھی موجود ہیں۔ نیب پراسکیوٹر نے نواز شریف پر عائد کی گئی فرد جرم کے کچھ حصے پڑھے۔
نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ فرد جرم عائد کرتے ہوئے عدالت نے ملزمان کےمعلوم ذرائع لکھے، نواز شریف پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹس کے الزام کے تحت فرد جرم عائد کی گئی، ایس ای سی پی، بینک اور ایف بی آر کے گواہ عدالت میں پیش ہوئے۔
جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی طور پر اس کیس میں العزیزیہ اور ہل میٹل کے الزامات ہیں، العزیزیہ میں پہلے بتائیں کتنے پیسے بھیجے کیسے بھیجے کب فیکٹری لگی ؟
نیب پراسکیوٹر نے کہا کہ یہ وائٹ کالر کرائم کا کیس ہے، پاکستان میں موجود شواہد اکٹھے کیے ہیں، بیرون ملک شواہد کے حصول کے لیے ایم ایل اے لکھے گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ بتائیں وہ کون سے شواہد ہیں جن سے آپ ان کا تعلق کیس سے جوڑ رہے ہیں؟ جائیدادوں کی مالیت سے متعلق کوئی دستاویز تو ہوگا؟ آپ بتائیے العزیزیہ کب لگائی گئی نواز شریف کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ثبوت میں دستاویز ان کی اپنی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ یہ کس کے حوالے سے دستاویز ہے؟ آپ نے پچھلی سماعت پر کہا تھا کہ جج کے حوالے سے تعصب کا معاملہ موجود ہے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جج کی برطرفی کے بعد اس فیصلے پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔
اس دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے نواز شریف کے وکیل سے کہا کہ سپریم کورٹ کی بہت اہم آبزرویشں تھیں جج کو مس کنڈکٹ پر عہدے سے ہٹایا گیا، نیب آپ کو بہت رعایت دے رہی ہے پتا نہیں آپ کیوں نہیں لے رہے؟
چیف جسٹس نے امجد پرویز سے کہا کہ ہم نے ارشد ملک سے متعلق درخواست پر گزشتہ سماعت پر کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا تھا، یہ تو آپ نے کہا تھا کہ آپ اس درخواست پر مزید کارروائی نہیں چاہتے،نیب وکیل کی بات درست ہے کہ سپریم کورٹ کے ارشد ملک کیس کے فیصلے میں آبزرویشنز کافی مضبوط ہیں، وہ درخواست اگر نہ بھی ہوتی، تب بھی اگر وہ فیصلہ ہمارے سامنے آجاتا تو ہم اس کو ملحوظ خاطر رکھتے۔
نیب نے استدعا کی کہ العزیزیہ ریفرنس کو ریمانڈ بیک کردیا جائے تاکہ عدالت نے کیس ریمانڈ بیک کرنے کی استدعا مسترد کردی۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے نیب سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا اس وقت احتساب عدالت نمبر ایک کے جج نے اس ریفرنس کو سننے سے انکار کیا تھا؟ آپ میرٹ پر کتنی دیر میں دلائل مکمل کریں گے۔
عدالت کی نیب کو میرٹ پر دلائل دینے کی ہدایت کی اور کہا کہ آپ کو بتانا ہے کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز سے یہ رقم سعودی عرب بھیجی گئی، نیب کے گواہ واجد ضیا خود مان رہے ہیں کہ کوئی ثبوت نہیں، اس دستاویز کو درست بھی مان لیا جائے تو یہ ثابت نہیں ہوتا کہ نواز شریف کا العزیزیہ اور ہل میٹل کے ساتھ کوئی تعلق ہے، ایسے کیسز میں دستاویزی شواہد ہی ہوتے ہیں، اس وقت استغاثہ نے کچھ تو شواہد جمع کیے ہوں گے۔
نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ واجد ضیا نے تجزیہ کیا کہ نواز شریف ہی اصل مالک ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ واجد ضیا تو خود مان رہا کہ ملکیت ثابت کرنے کا کوئی ثبوت نہیں۔
نیب نے کہا کہ ہمارا کیس ہی واجد ضیا کے اینالائسس کی بنیاد پر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس ڈاکیومنٹ سے کچھ ثابت نہیں ہوتا، مفروضے پر تو کبھی بھی سزا نہیں ہوتی ہے۔
بعدازاں عدالت نے دونوں طرفہ دلائل مکمل ہونے کے بعد نواز شریف کی سزا کے خلاف فیصلہ محفوظ کرلیا جو کچھ دیر بعد سنادیا۔
عدالت نے العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو دی گئی سزا کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں باعزت کردیا۔
دریں اثنا نواز شریف کی پیشی کے موقع پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں اور اردگرد پولیس نے سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے، پولیس کی بھاری نفری اسلام آباد ہائی کورٹ کے اندر اور باہر تعینات رہی۔ مسلم لیگ ن کے حامی وکلاء کی بڑی تعداد بھی ہائی کورٹ میں موجود رہی جب کہ عدالت کے باہر ن لیگی کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی۔