پروین رحمان قتل کیس،بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی ختم

پروین رحمان قتل کیس،بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی ختم
کیپشن: پروین رحمان قتل کیس،بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی ختم

ایک نیوز نیوز: عدالت نے پروین رحمان قتل کیس میں بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی ختم کردی۔عدالت نے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا ہے۔

سندھ ہائیکورٹ  میں ڈائریکٹر او پی پی پروین رحمان قتل کیس کی سماعت ہوئی،بری ملزمان کی نظر بندی کےسلسلے میں آئی جی سندھ غلام نبی میمن پیش ہوئے،سیکریٹری داخلہ سندھ سعید احمد اور دیگر بھی ہائیکورٹ میں پیش ہوئے ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ درخواست قابل سماعت نہیں۔

سندھ ہائیکورٹ نے ریمارکس دیئے کہ آپ لوگ بد نیتی پر مبنی فیصلے کرتے ہیں اور آکر اعتراف کررہے ہیں، جسٹس کے آغاز نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ جب ہائیکورٹ نے بری کرنے کا حکم دیا تو نظر بندی کا کیا جواز ہے؟ فیصلے پر اعتراض تھا تو سپریم کورٹ میں اپیل دائر کریں،اس طرح کا رویہ ہر گز قابل قبول نہیں ہے،اگر ملزمان سے نقص امن کا خدشہ ہے تو سی آر او کہاں ہیں ؟عدالت نے آئی جی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پبلک سرونٹ ہیں کسی حکومت کے نہیں۔آئی جی سندھ نے عدالت میں کہا کہ ملزمان کے خلاف ایک ہی مقدمہ پروین رحمان قتل کیس درج ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم 15،15 قتل کے ملزمان کو عدم شواہد پر رہا کردیتے ہیں ان کے خلاف ایم پی او کیوں نہیں لگاتے ؟عدالت شواہد دیکھتی ہے اور فیصلہ کرتی ہے پروین رحمان کیس کے ملزمان رہا ہو کر کب اور کہاں گئے تھے ؟ ملزمان رہا ہوکر اورنگی ٹاؤن گئے،آپ کو کس نے اطلاع دی کہ ان سے خطرہ ہے ؟

آئی جی سندھ نے عدالت میں کہا کہ ملزمان کے حوالے سے خفیہ اطلاعات تھیں۔

عدالت نے اسفتسار کیا کہ آپ کو کسی ایس ایچ او کسی پولیس افسر نے بتایا ؟ایڈوکیٹ جنرل بتائیں ان کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے ؟ معذرت کے ساتھ آپ کے محکمے کی انویسٹی گیشن سے مطمئن نہیں، خراب انویسٹی گیشن پر متعدد بار متنبہ کر چکے ہیں۔آئی جی سندھ نے عدالت میں کہا کہ ہمیں ایک اور موقع دے دیا جائے۔

عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ سب کے خلاف خراب انویسٹی گیشن پر کارروائی ہونی چاہیے، ملزمان کو 90 روز کے لیے بند کرنا چاہتے ہیں، وضاحت دیں، آپ نے جس طرح انویسٹی گیشن کی، فیصلے میں سب لکھ دیا ہے،آپ کی انویسٹی گیشن سے بالکل مطمئن نہیں، بہت ہوگیا ہم پولیس افسران کے خلاف کارروائی کا حکم دیں گے۔

جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی تفتیش ناقص ہے، اگر شواہد تھے تو عدالت میں پیش کرتے ،عدالت نے آئی جی سے سوال کیا کہ اسپیشل برانچ آپ کے ماتحت کام کرتی ہے ؟ جس پر آئی جی سندھ نے جواب دیا کہ جی ،اسپیشل برانچ ہمارے ماتحت کام کرتی ہے۔عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ لیٹر آپ کے ادارے کا ہے اور پولیس کی کارکردگی ہمارے سامنے ہے ،آئی جی سندھ نے کہا کہ ہمیں آئی بی کے ذمہ دار افسر کا فون آیا تھا انہوں نے خدشے کا اظہار کیاتھا ۔عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے حوالے سے کارکردگی بتانے کی ضرورت نہیں ہے،لاپتہ افراد کے کیسز میں جو کارکردگی ہے اس پر بھی بات کریں ؟ آئی جی سندھ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی تعداد اب کم ہورہی ہے ہم اس پر کام کررہے ہیں ،عدالت نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں نہ بتائیں کام کررہے ہیں جو رپورٹس آتی ہیں اس میں سب لکھا ہوتا ہے،آئی جی سندھ نے کہا کہ اندازے اور اطلاعات کی بنیاد پر لیٹر جاری کیا جاتا ہے ، اندازہ غلط بھی ہوسکتاہے۔

عدالت نے سیکرٹری داخلہ سندھ سے سوال کیا کہ آپ کس گریڈ کے افسر ہیں ؟ سیکرٹری داخلہ سندھ نے عدالت میں جواب دیا کہ میرا گریڈ 20 ہے عدالت نے سوال کیا کہ کون سے شواہد کی بنیاد پر ایم پی او کا فیصلہ کیا گیا ؟ ملزمان 9دن تک باہر رہے، کوئی شرپسندی یا کوئی جرم کیا ؟ آپ لوگ مسلسل ایک فون کال کو ا نٹیلی جنس رپورٹ کہہ رہے ہیں ،جب تک ملزمان کے سی آر او سے خطرناک ثابت نہیں کرتے ایم پی او کا کوئی جواز نہیں ،ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ حکومت کو انتظامی فیصلے کرنے کا اختیار ہے، اجازت دی جائے ،سندھ ہائیکورٹ نےریمارکس دیئے کہ اگر آپ ایم پی او کا حکم واپس لیتے ہیں تو کیس ختم ہوجائےگا ،سیکرٹری داخلہ نے کہا کہ مجھے کابینہ نے اختیار دیا ہے اسلیے مشاورت کا موقع دیا جائے ، عدالت نے سیکرٹری داخلہ کو حکم دیا کہ آدھے گھنٹے میں حکام سے ہدایات لے کر آئیں اور جواب دیں ،عدالت نے سرکاری وکلا اور سیکریٹری داخلہ کو جواب کیلئے 12 بجے تک کیلئےمہلت دے دی۔

اورنگی پائلٹ پراجیکٹ کی سربراہ پروین رحمان کو2013 قتل کیا گیا تھا۔پروین رحمان قتل کیس کے ملزمان کو دسمبر2021 میں سزائیں سنائی گئی تھیں۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت نے ملزم رحیم سواتی، امجد حسین، ایاز سواتی اور احمد حسین کو دو بار عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ سندھ ہائیکورٹ نے ملزمان کی سزاؤں کے خلاف اپیل منظورکرتے ہوئے سزاؤں کو کالعدم قراردیتے ہوئے حکم دیا کہ اگر ملزمان دوسرے کیسز میں مطلوب نہیں توانہیں رہا کیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے پروین رحمان قتل کیس میں بری ہونے والے ملزمان کی نظر بندی ختم کردی۔عدالت نے محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے دیا ہے۔

خیال رہے کہ محکمہ داخلہ نے یکم دسمبر کو پانچ افراد کو تین ماہ کے لئے نظر بند کرنے کا حکم دیا تھا۔

واضح رہے کہ کراچی کی ایک انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سماجی کارکن پروین رحمان کے قتل کے مقدمے میں چار ملزمان کو پچھلے سال دو، دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ ان چار ملزمان رحیم سواتی, احمد خان, امجد اور ایاز سواتی پر دو, دو لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ جبکہ پانچویں مجرم عمران سواتی کو قتل میں دیگر مجرموں کی معاونت کرنے پر سات سال قید اور دولاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی۔