زہریلی شراب ، پاکستان میں موت کیسے بنتی اور بٹتی ہے؟

Aug 12, 2022 | 18:40 PM

  ایک نیوز نیوز:  ملک بھر میں کچی شراب کاکاروبارعروج پر ہے جس کے باعث سینکڑوں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔ جعلی شراب جو اب باقاعدہ صنعت کی شکل اختیار کر  چکی ہے، کی ملک کے کئی حصوں میں فیکٹریاں لگ چکی ہیں اور کسی ماہر کے علاوہ اس شراب کو پہچاننا کافی مشکل ہے۔

 جبکہ مقامی طور پر زیادہ سے  زیادہ منافع کمانے کی دوڑ میں آفٹرشیو لوشن میں نیند کی گولیاں ملا کر نشہ آور مشروب بنایا جانے لگا۔ اسی طرح کچی شراب کی تیاری میں تھنر، اسپرٹ، گلے سڑے پھل اوردیگر اشیاء شامل کی جاتی ہیں جو انسانی صحت کے لیے سخت نقصان دہ ہیں۔ ایسی شراب استعمال کرنے والے شخص کے جگر،گردوں اور پھپھڑوں پر مضر اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

کچی شراب استعمال کرنے والے افراد نے اس قسم کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں جن میں شاپر، کپّی، بمباٹ اور ٹھرّا شامل ہیں جب کہ بھارتی سپراسٹار کترینہ کے نام سے منسوب کچی شراب ان دنوں زیادہ مشہور ہے اور اس کی مانگ سب سے زیادہ ہے۔

موت کے سودا گر کھلے عام اپنی مذموم سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اورکم آمدنی والے افراد نشے کے نام پر اپنی موت خریدنے میں مصروف ہیں۔ زہریلی شراب پینے سے ہلاکتوں کے علاوہ متعدد افراد بینائی سے محرومی کے علاوہ مختلف قسم کی مہلک بیماریوں کا شکار ہوچکے ہیں ۔

 غیر ملکی اورمشہور برانڈ کی بوتلوں میں دیسی شراب بھر کر فروخت کرنے کا دھندا بھی زور وشور سے جاری ہے۔ اس مکروہ دھندے میں انتہائی بااثر افراد ملوث ہیں جس کی وجہ سے پولیس اورایکسائز کا عملہ عوامی شکایت کے باوجود ان پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے اپنا حصہ وصول کرکے چشم پوشی کا مظاہر ہ کرتاہے ۔

پاکستان میں مری بیوری، کوئٹہ ڈسٹلری اور مہران ڈسٹلری کے نام سے شراب کے کارخانے موجود ہیں جن کی محدود پروڈکشن ملک میں روز افزوں مانگ  کو پورا کرنے میں  ناکام ہے۔ کورونا کے دنوں میں بھی جب تمام کاروبار زوال اور مندی کا شکار  تھے تو وہیں شراب کا کاروبار نہ صرف برقرار  رہا بلکہ اس میں اضافہ بھی ہوا ہے۔ اور ایک رپورٹ کے مطابق شراب استعمال کرنیوالوں کی تعداد میں تقریبا 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

کراچی میں شراب خانوں کے مالکان اور منیجرز سے لی گئی معلومات کے مطابق ملیر پندرہ پر قائم شراب خانے سے یومیہ 300 لیٹر شراب فروخت ہوتی ہے۔ عیسیٰ نگری جہاں مسیحی آبادی زیادہ ہے وہاں 500 سے 600 لیٹر تک یومیہ فروخت ہوتی ہے۔ اس طرح میمن گوٹھ کے شراب خانے سے 300 لیٹر یومیہ تک شراب لی جاتی ہے۔ لاہور میں شراب خانے موجود نہیں تاہم یہاں مخصوص ہوٹلز  کے بارز سے ہی شراب ملتی ہے جن میں پرل کانٹی نینٹل ہوٹل، فلیٹز ہوٹل، ایمبیسیڈرہوٹل شامل ہیں۔ جبکہ انفرادی طور پر بھی کئی افراد شراب کی خرید وفروخت میں ملوث ہیں جہاں سے بہرحال جعلی یا کچی شراب ملنے کا بہت زیادہ امکان ہے۔ 

مزیدخبریں