ایک نیوز:لاہورہائیکورٹ نےزمان پارک واقعات میں جے آئی ٹی کی تشکیل کیخلاف درخواستوں کو باقاعدہ سماعت کیلئے منظور کرتے ہوئے سرکاری وکیل سے آئندہ سماعت پردستاویزات کے ساتھ تفصیلی جواب طلب کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق تحریک انصاف کے کارکن ظل شاہ قتل اور کارکنوں پر پولیس تشدد کے معاملے پر سماعت ہوئی،جسٹس طارق سلیم شیخ کی سربراہی میں 2رکنی بنچ نے پی ٹی آئی کے فواد چودھری سمیت دیگر رہنماؤں کی درخواستوں پر سماعت کی۔درخواست میں چیف سیکرٹری، ہوم سیکرٹری، ایڈیشنل ہوم سیکرٹری، آئی جی سمیت دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں موقف اپنایا گیا ہے کہ پنجاب میں الیکشن پی ٹی آئی کی الیکشن مہم روکنے کی کوشش کی جارہی ہے، وفاقی حکومت اور صوبائی انتظامیہ پی ٹی آئی قیادت اور کارکنوں کو ہراساں کررہی ہے،وفاقی وزراء میڈیا پر پی ٹی آئی رہنماؤں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے رہے ہیں،چیئرمین عمران خان اور مرکزی رہنماؤں کیخلاف 127 کے قریب کیسز بنادیئے،8 مارچ کی انتخابی ریلی روکنے کیلئے ظل شاہ قتل اور پولیس تشدد سب کے سامنے ہے،پولیس تشدد میں ملوث افسران کیخلاف مقدمات کے اندراج کیلئے درخواستیں عدالتوں میں زیر التواء ہیں،ایڈیشنل سیکرٹری ہوم نے خلاف قانون 22 مارچ کو جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن جاری کیا،جو افسران تشدد میں ملوث ہیں انہی کو جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ تشدد میں ملوث افسران نہ جے آئی ٹی بناسکتے ہیں اور نہ تحقیقات کرسکتے ہیں،ایڈیشنل سیکرٹری ہوم نے بدنیتی کی بنیاد پر جے آئی ٹی کا نوٹیفکیشن جاری کیا،بدنیتی پر مبنی بنائی جے آئی ٹی کا مقصد حقائق کو مسخ کرنا ہے،عدالت جے آئی ٹی کی تشکیل کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دے،عدالت جے آئی ٹی سربراہ کو پی ٹی آئی رہنماؤں کو نوٹس جاری کرنے سے روکے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ درخواستیں ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں،ان میں آئینی اور قانونی سوالات اُٹھائے گئے ہیں۔ان نقاط کی تشریح اور وضاحت کیلئے اٹارنی جنرل اور ایڈووکیٹ جنرل کو معاونت کیلئے طلب کر لیتے ہیں۔
ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نہنگ نے کہا اب اس کیس کی صورتحال تبدیل ہوگئی ہے۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ ہم اس میں نقاط جو قابل غور ہیں ڈسکس کریں گے۔
ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل غلام سرور نہنگ نے کہا کہ انہوں نے کابینہ کی منظوری کے بغیر جے آئی ٹی کو چیلنج کیا۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیئے کہ آپ تمام سوالات کے جواب دیجئے گا،جے آئی ٹی کے 5ممبر ہیں ضمنی کون لکھے گا،صوبائی حکومت کیسے جے آئی ٹی، آئی ایس آئی اور دیگر ایجنسیز کے نمائندے شامل کرسکتی ہے،اسی طرح کے اور بہت سے سوالات ہیں،یہ کہتے ہیں وفاقی حکومت کی اجازت کے بغیر صوبائی حکومت خفیہ ایجنسیز کو شامل نہیں کیا جاسکتا، آج کل جو تسلسل سے حالات اور واقعات پیش آرہے ہیں،بہت سے ایشوز سامنے آرہے ہیں جن میں قانونی نقاط کی وضاحت کی ضرورت ہے،وارنٹ پر عملدرآمد کیلئے جو کچھ سامنے آیا ہے،کیا وارنٹ پر عملدرآمد کے معاملے میں بدنیتی تو شامل نہیں،کیا زمان پارک میں جو آپریشن ہوا ان میں دہشتگردی دفعات لگائی جاسکتی ہیں؟آپ نے جو کمنٹس جمع کروائے ہیں وہ مزید وضاحت طلب ہیں،؟ہم آپ کو تفصیلی وضاحت کیلئے پھر موقع دینگے۔یہ بھی دیکھیں گے کہ صوبائی حکومت رینجرز کیسے طلب کر سکتے ہے۔
عدالت نے پی ٹی آئی کی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرلیں،عدالت نے درخواست میں وفاقی حکومت کو بھی فریق بنانے کی ہدایت کر دی،عدالت نے صوبائی حکومت سمیت فریقین کو نوٹس جاری کر دیئے،عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل کو آئندہ سماعت پر پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے سماعت 17 اپریل تک ملتوی کردی۔
عدالت نے جے آئی ٹی کی تشکیل معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ کوئی بات نہیں پیر کو دیکھیں گے۔