ایک نیوز: چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاہے کہ فروری 2023میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے،آئینی ایشوز میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیاگیا،سخت امتحان اور ماحول کا کئی مرتبہ عدالت خودشکار بنی, چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا نقطئہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ضرور ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک قابل تعریف شخصیت کے مالک ہیں، اسی لیے میرے دل میں ان کے لیے عزت ہے۔
تٖفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں نئے عدالتی سال کی تقریب کا آغاز،چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں فل کورٹ ریفرنس شروع ہوگیا۔سپریم کورٹ میں جاری فل کورٹ ریفرنس میں 15 ججز نے شرکت کی۔فل کورٹ ریفرنس میں جسٹس یحییٰ آفریدی کے سوا تمام ججز شریک ہیں۔جسٹس یحییٰ آفریدی بیرون ملک ہونے کی وجہ سے فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہ ہوسکے۔
فل کورٹ ریفرنس کی تقریب میں اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرلز بھی شریک ہیں،سپریم کورٹ بار، پاکستان بار کے نمائندہ اور وکلاء کی بڑی تعداد فل کورٹ تقریب میں شریک ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ بطور چیف جسٹس آخری بار نئے عدالتی سال کی تقریب سے خطاب کررہا ہوں،گزشتہ سال عدالت کی ایک سالہ کارکردگی پر روشنی ڈالنی تھی،تعیناتی کے ایک سال میں سپریم کورٹ نے ریکارڈ23ہزار مقدمات نمٹائے،اس سے پہلے ایک سال میں نمٹائے گئے مقدمات کی زیادہ سے زیادہ تعداد 18ہزار تھی،کوشش تھی کہ زیرالتوا مقدمات 50ہزار سے کم ہو سکیں،زیرالتوا مقدمات کی تعداد میں 2ہزار کی کمی ہی کر سکے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہاکہ فروری 2023میں سپریم کورٹ کے سامنے کئی آئینی مقدمات آئے،آئینی ایشوز میں الجھا کر عدالت کا امتحان لیاگیا،سخت امتحان اور ماحول کا کئی مرتبہ عدالت خودشکار بنی، جو واقعات پیش آئے انہیں دہرانا نہیں چاہتا، اس سے عدالتی کارکردگی متاثر ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو لیکس کیس کے فیصلے میں تمام واقعات کا ذکر کیا گیا ہے،انہوں نے اس سلسلے میں رواں سال فروری میں عدالت میں پیش کیے گئے مقدمات کا ذکر کیا۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا نقطہ نظر ایک دوسرے سے مختلف ہے، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایک قابل تعریف شخصیت کے مالک ہیں اسی لیے میرے دل میں انکے لیے عزت ہے،تمام ساتھی ججوں کا میرے ساتھ برتاؤ بہت اچھارہا،جہاں آزاد دماغ موجود ہوں وہاں اختلاف ہوتا ہے،میرے دائیں قاضی فائز عیسیٰ ہیں جو بہت اچھے انسان ہیں۔
صحافیوں نے چیف جسٹس عمر عطابندیال سےسوال کیا کہ کیا آپ فل کورٹ ریفرنس لے رہے ہیں؟
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ میں نے ابھی تک فل کورٹ ریفرنس کے بارے میں نہیں سوچا اور فیصلہ نہیں کیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے صحافیوں نےسوال کیا کہ کیا چیف جسٹس کو فل کورٹ ریفرنس دیا جا رہا ہے؟
نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم بھی انتظار کر رہے ہیں جیسے پتا چلے گا بتا دیں گے،ویسے انہوں نے آج تقریر میں تو کہا ہے کہ شاید یہ میرا آخری خطاب ہے۔
چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس کے طور پر بہت سی امیدیں لے کر جا رہا ہوں،پُر امید ہوں کیونکہ سپریم کورٹ نے بہت مشکل وقت کاٹ لیا ہے،ہم میں سے کسی نے بھی اسمبلی کی تحلیل کے بعد عام انتخابات 90 دن میں کرانے پر اختلاف نہیں کیا،مشکل اس لیے پیش آئی کہ یہ ایک سیاسی لڑائی تھی،عدالت کی ذمہ داری یہ بتانا ہے کہ آئین کیا کہتا ہے،عدالت کی بھی کچھ آئینی حدود ہیں جن کے پابند ہیں، سپریم کورٹ نے سوموٹو نمبر 4/2021 میں ازخود نوٹس کے طریقہ کار کو واضح کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ شدید تنقید کے باوجود اس سال 9 ماہ میں صرف ایک ازخود نوٹس لیا،دعا ہے کہ ملک میں استحکام آئے،جب ملک میں سیاسی استحکام آئے گا تو عدلیہ سمیت ہر ادارہ مستحکم ہوگا،سپریم کورٹ پر اربوں روپے کا ڈیم فنڈ رکھنے کا الزام لگایا جاتا ہے،سپریم کورٹ کی جانب سے ڈیمز فنڈ قائم کیا گیا تھا،ڈیم فنڈ گورنمنٹ کی سیکیورٹی میں ہے،ڈیمز فنڈ میں اگست 2023 میں 4 لاکھ روپے کا اضافہ ہوا،اگست میں بھی فنڈز میں رقم آنے کا مطلب عوام کا سپریم کورٹ پر اعتماد ہے،ڈیمز فنڈ کے اس وقت 18.6 ارب روپے نیشنل بنک کے ذریعے اسٹیٹ بنک میں انویسٹ کیے گئے ہیں،ڈیمز فنڈ کی نگرانی سپریم کورٹ کا 5 رکنی بنچ کر رہا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق ڈیم فنڈ تب تک قابل عمل نہیں ہو سکتا جب تک کچھ ٹھوس اقدامات نہ کیے جائیں،خواتین ججز کے سپریم کورٹ آنے سے سپریم کورٹ مزید مضبوط ہوئی،سپریم کورٹ کے انتظامی عہدوں پر بھی خواتین کا اضافہ ہوا،سپریم کورٹ کی خاتون ترجمان میڈیا کو بہترین طریقے سے لے کر چلیں،امید ہے کہ میڈیا کے ساتھیوں کو کوئی گلہ نہیں ہوگا،درست رپورٹنگ پر میڈیا کا خیر مقدم اور غلط رپورٹنگ پر درگزر کرتے ہیں،اپنے تمام ساتھی ججز کا مشکور ہوں، جب آزاد دماغ ملتے ہیں تبھی اختلاف رائے سامنے آتا ہے،امید ہے کہ سپریم کورٹ مزید مضبوط، بااختیار اور آزاد ہو گی،میں نے نہ صرف اتفاق رائے بلکہ اختلاف رائے سے بھی بہت کچھ سیکھا۔
صدر عابد زبیری
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عابد زبیری نے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موسم گرما کی تعطیلات کے باوجود سپریم کورٹ نے عام آدمی تک انصاف کی فراہمی کا عمل جاری رکھا،تعطیلات کے باوجود مسلسل مقدمات کی شنواۃ کا سلسلہ جاری رکھنا لائق تحسین عمل ہے،دوران تعطیلات کئی سیاسی نوعیت کے مقدمات بھی سماعت کیلئے مقرر ہوئے،جس کی وجہ سے عام عوام کو انصاف کی فراہمی کا عمل سست روری کا شکار ہوا،جب سیاسی اور پارلیمانی نظام ناکام ہوجائے تو اس کا بوجھ بھی عدلیہ کو اپنے کندھوں پر اٹھانا پڑتا ہے۔
صدر عابد زبیری نے کہا کہ مقدمات کی جلد سماعت کیلئے دائر درخواستوں کا زیر التوا رکھے جانے سے انصاف کی فراہمی کا عمل سست روی کا شکار ہوتا ہے،عدالت کی توجہ 90 دن میں انتخابات کرانے کے آئنی معاملہ پر مبزول کروانا چاہتا ہوں،الیکشن کمیشن ہیلے بحانہ کے ذریعے انتخاب آئنی مدت میں کروانے سے گریزاں ہے،الیکشن کمیشن کا یہ رویہ رائے دہی کے آئنی کے حق کے منافی ہے،آئین سے روگرداری پہ آرٹیکل 6 کے تحت الیکشن کمیشن کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے،سپریم کورٹ نے انتخابات سے متعلق اپنے فیصلہ پر عمل کرانے کیلئے کوئی قدم نہیں اُٹھایا۔
صدر عابد زبیری نے مزید کہا کہ اتنخابات کے حوالہ سے ہماری درخواست کی ابھی تک شنوائی نہیں ہوسکی،انتخاب کے حوالے سے ہماری درخواست کو جلد سماعت کیلئے مقرر کیا جائے،صدر مملکت سے ہمارا مطالبہ ہے کہ جلد انتخابات کا اعلان کرے ،آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی ایکٹ کی آڑ میں بنیادی حقوق کی پامالیاں ہورہی ہیں،سویلین کا ٹرائل غیر آئینی اور غیر قانونی ہے جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں،قوم کی بیٹیاں اور بہنیں من گھڑت اور بے بنیاد الزامات پر قید ہیں،عدالت ان جبری قید کا نوٹس لے،فوجی عدالتوں کے خلاف درخواستوں کو فوری مقرر کیا جائے،عدلیہ اور ججز کی تضحیک وکلاء برادری کبھی تسلیم نہیں کرے گی،امید کرتے ہیں کہ نئے عدالتی سال میں سپریم کورٹ میں تقسیم کے تاثر کو ختم کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھائے جائیں گے،نامز چیف جسٹس سے امیدہے کہ وہ آئین اور قانون کی عمل درامد پر یقینی بنائیں گے۔
وائس چیئرمین ہارون الرشید
پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین ہارون الرشید نے سپریم کورٹ میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت سپریم کورٹ میں لگ بھگ 60 ہزار مقدمات زیر التواء ہیں،سپریم کورٹ کو بار ہا التجاء اور یاد دہانی کے باوجود تیز انصاف کے لیے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا،زیر التواء مقدمات کی جلد سماعت کیلئے کوئی شفاف نظام وضع نہ کیا جاسکا،کچھ عرصہ سے سپریم کورٹ میں مقدمات میں مختصر فیصلہ کرنے کی ایک نئی روش چل پڑی ہے،سپریم کورٹ میں اکثر مقدمات میں بروقت تفصیلی فیصلے جاری نہیں ہوتے۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے کہا کہ سپریم کورٹ میں فیصلے جاری نہیں ہوتے یہاں تک کہ کچھ ججز ریٹائرڈ بھی ہوجاتے ہیں،کچھ مقدمات میں لارجر بنچ بننے کا حکم ہوا لیکن آج تک وہ لارجر بنچ تشکیل نہیں دئیے جاسکے، نامزد چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ نئے اور فوری نوعیت کے کیسز جب فائل ہوں تو اسی ہفتے سماعت ہو،سپریم کورٹ میں فوری نوعیت کے بہت مقدمات صرف پہلی سماعت کے منتظر ہیں،ایک عام تاثر ہے کہ چند خاص لوگوں کے مقدمات دائر ہوتے ہی فوراََ سماعت کے لیے مقرر ہوجاتے ہیں۔
وائس چیئرمین پاکستان بار کونسل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں عام مقدمات کافی دیر کے بعد فکس ہوتے ہیں جس سے عوام مایوس ہوتی ہے،نامزد چیف جسٹس عام مقدمات میں تاخیر کے تاثر کو زائل کریں،ایسا سسٹم تشکیل دیا جائے کہ مقدمات سماعت کے لیے مقرر بلا تفریق ہوں،عام لوگوں کو محرومی کا احساس نہ ہو اور سپریم کورٹ پر اعتماد قائم رہے۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے سپریم کورٹ فل کورٹ ریفرنس سےخطاب کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ میں مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے،کیسز کم کرنے کی کاوشوں کو سراہتے ہیں تاہم ابھی بھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،عام سائلین کے مقدمات کے بلاتاخیر فیصلے ہونے چاہییں،سپریم کورٹ کو اپنی توانائیوں عام سائلین کے کیسز کو سننے میں صرف کرنی چاہیں،سپریم کورٹ میں براہ راست سیاسی اور ہائی پروفائل کیسز کی وجہ سے عام سائلین کے مقدمات متاثر ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ میں براہ راست مقدمات غیر معمولی اور عوامی مفاد اور بنیادی حقوق کے معاملات میں ہونے چاہیئے۔بنچز کی تشکیل اور ججز تعیناتیوں کی بازگشت پارلیمان میں بھی سنی گئی،سپریم کورٹ نے متعدد مواقع پر صوابدیدی اختیارات میں شفافیت پر زور دیا ہے،کوئی وجہ نہیں کہ سپریم کورٹ اس اصول کا خود پر اطلاق نہ کرے،نئے عدالتی سال کے ساتھ ساتھ ہم جوڈیشل لیڈر شپ کی تبدیلی کے مرحلے سے بھی گزر رہے ہیں،جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بطور چیف جسٹس عہدہ سنبھالنے کے قریب ہیں،مجھے یقین ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی لیڈرشپ میں ہم شفافیت، مستعدی اور عوامی اعتماد کے نئے دور کی جانب بڑھیں گے۔