ایک نیوز : سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں ناقابل سماعت قرار ،پارلیمنٹ کا فیصلہ درست ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سمیت10 ججز کا فیصلہ آگیا۔ 5ججز نے فیصلے سے اختلاف کیا ۔
اٹارنی جنرل عثمان منصور کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کیس کا فیصلہ سنایا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ تاخیر کے لیے معذرت چاہتے ہیں کہ معاملہ بہت تکنیکی تھا، پہلے آج کا حکم نامہ پڑھ کر سناؤں گا۔
سپریم کورٹ کے فیصلےکے مطابق 5-10کے تناسب سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کوبرقرار رکھا جاتا ہے۔جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس مظاہر نقوی اور جسٹس شاہد وحید نے ایکٹ کی مخالفت کی جبکہ باقی ججز نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستیں مسترد کردیں۔
سپریم کورٹ نے ایکٹ کے ماضی سے اطلاق کی شق 7-8 سے مسترد کردی جس کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈپروسیجر ایکٹ کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوگا۔
اپیل کا حق ماضی سے دینے کی قانون شق کی حمایت کرنے والے ججز میں چیف جسٹس پاکستان، جسٹس سردار طارق مسعود ، جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال مندوخیل ، جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔
فل کورٹ نے 6-9 کے تناسب سے ازخود نوٹس ( 184/3) کے کیسز اپیل کے حق کی شق کو برقرار رکھا ہے جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس مظاہر نقوی، جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس شاہد وحید نے اپیل کے حق کی مخالفت کی۔
اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ نافذ ہوگیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کافیصلے میں کہنا تھاکہ5کی نسبت 10کے اکثریتی فیصلے سے ایکٹ کو برقرار رکھا جاتا ہے ۔فل کورٹ کے 10ججز نے ایکٹ کے حق میں فیصلہ دیا،5نے مخالفت کی۔سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کا تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔فل کورٹ نے ایکٹ کیخلاف درخواستیں پر5سماعتیں کی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کا اطلاق ہوگیا۔
دوران سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ ہماری دشمن نہیں ہے نہ ہم پارلیمنٹ کے دشمن ہیں،ہم مل کے چل سکتے ہیں اداروں کو لڑانے کی کوشش نہ کریں،آپ آئین پر فوکس رکھیں۔ جسٹس منیب اختر نے اہم سوالات اٹھاتے ہوئے استفسار کیا کہ 1956کے آئین کے مطابق رولز کی منظوری صدر یا گورنر جنرل کی تھی،آپ کے مطابق پارلیمنٹ کو رولز میں ردوبدل کی اجازت ہے،آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس سے پہلے سپریم کورٹ رولز کی منظوری پارلیمنٹ نے کیوں نہیں دی؟
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ سماعت ہوئی ۔اٹارنی جنرل کے دلائل سے پہلے چیف جسٹس کے ریمارکس کہاکہ آپ Last but not the least ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ کیس قابل سماعت ہونے پردلائل دے چکا ہوں، تین سوالات اٹھائے گئے ہیں جن کا جواب دوں گا، میں آرٹیکل 191اور عدلیہ کی آزادی کی بات کروں گا، پارلیمنٹ کے ماسٹرآف روسٹر ہونے کے سوال پر دلائل دوں گا، اپیل کا حق دیئے جانے پر دلائل دوں گا، فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کے سوال پر بھی دلائل دوں گا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہاکہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا، ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا،جب سے آئین بنا ہے آرٹیکل 191میں کوئی ترمیم نہیں ہوئی۔
جسٹس منیب اختر نے کہاکہ 1956کے آئین کے مطابق رولز کی منظوری صدر یا گورنر جنرل کی تھی،آپ کے مطابق پارلیمنٹ کو رولز میں ردوبدل کی اجازت ہے،آپ کی دلیل مان لی جائے تو اس سے پہلے سپریم کورٹ رولز کی منظوری پارلیمنٹ نے کیوں نہیں دی؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ اختیار استعمال نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ پارلیمنٹ کاکاختیار ختم ہو گیا،آرٹیکل 191میں قانون کا لفظ موجود ہے جس کے تحت ہی پریکٹس اینڈ پروسیجر لا بنا۔
دوران سماعت جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 191مختلف اور باقی جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ دے رہے ہیں وہ مختلف ہیں،جن آرٹیکلز کا حوالہ آپ نے دیا ہے وہ بنیادی حقوق ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ آرٹیکل 191کے تحت پارلیمنٹ کو قانون سازی کااختیار ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ اصل سوال تو عدلیہ کی آزادی کا ہی ہے۔
جسٹس مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ عدلیہ کی آزادی کو سلب کررہا ہے یا بڑھا رہا ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ اختیارات کی تقسیم کے اصول، عدلیہ کی آزادی کے نکات پر دلائل میں ان سوالات کے جواب دوں گا، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کے خلاف قانون سازی نہیں کر سکتی۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ون سائز فٹس آل نہیں چل سکتا یہاں پر۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 191میں قانون کا لفظ استعمال کیوں ہوا، اس پر بھی روشنی ڈالیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ صوبائی اسمبلی کا بھی ہو سکتا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 میں ترمیم نہ ہونا عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نےریمارکس دیئے کہ کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آرٹیکل 191 میں لاء کا لفظ باقی آئینی شقوں میں اس لفظ کے استعمال سے مختلف ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنگین غداری کے قانون اور رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ میں قانون سازی کا اختیار آئینی شقوں سے لیا گیا،ان قوانین میں پارلیمنٹ نے فیڈرل لیجسلیٹیو لسٹ پر انحصار نہیں کیا تھا،رائٹ ٹو پرائیویسی کو قانون کے ذریعے ریگولیٹ کیا گیا ہے،آرٹیکل 191 سے پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ملتا ہے،آئین کا کوئی آرٹیکل پارلیمان سے قانون سازی کا اختیار واپس نہیں لیتا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ پارلیمنٹ نے اگر 1973 کے بعد سے آرٹیکل 191 کے تحت کچھ نہیں کیا تو اس کا ایک اور مطلب بھی تھا،اس کامطلب یہ بھی ہو سکتا ہے پارلیمنٹ نے تسلیم کیا آرٹیکل 191 مزید قانون سازی کی اجازت نہیں دیتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آرٹیکل 191 قانون سازی کا اختیار دیتا ہے پابندی نہیں لگتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آئین میں لفظ لا دو سو سے زیادہ بار آیا ہے،آپ کہہ رہے ہیں جہاں بھی یہ لفظ لکھا وہ ایک تناظر میں دیکھا جائے گا،یہ 'ون سائز فٹ آل' والا معاملہ نہیں ہے،جہاں بھی یہ لفظ لکھا ہے اس کی نوعیت الگ ہے۔
جسٹس میاں محمد علی مظہر نےریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 191میں پھر سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹوشن اینڈ لا کیوں ہے؟یہ پھر صرف سبجیکٹ ٹو کانسٹیٹیوشن کیوں نہیں رکھا گیا؟
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آرٹیکل 191 میں صرف لا کا لفظ نہیں،یہ سبجیکٹ ٹولا لکھا ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ یہ کیوں نہیں کہتے کہ آئین سازوں نے پارلیمنٹ یا لاء کا لفظ دانستہ طور پر استعمال کیا ہے،پارلیمان نے آئین کو جاندار کتاب کے طور پر بنایا ہے کہ جو وقت پڑنے پر استعمال ہو سکے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ آئین ساز یہ بھی کہہ سکتے تھے کہ سپریم کورٹ اپنے رولز تب تک بنائے جب تک کوئی قانون سازی نہیں ہو جاتی،آئین سازوں کی نیت سے کہیں واضح نہیں ہے کہ قانون سازی سے سپریم کورٹ رولز بدل سکتے ہیں،آئین میں کہاں لکھا ہے کہ عدالتی فیصلے بھی قانون ہونگے؟عدالتی فیصلوں کی پابندی اور ان پر عملدرآمد ضروری ہے،آپ نے اپنی پوری بحث جو شروع کی ہے وہ کسی اور نکتے پر کی ہے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ اگر اپنے دلائل مرکوز رکھتے تو اتنی بحث نہ چھڑتی،یہاں معاملہ بھی تو تھوڑا ٹھنڈا رکھنا ہے،آپ اگر ہاں اور ناں میں جواب دیں تو بہتر ہے۔
جسٹس یحیی آفریدی نے ریمارکس دیئے کہ ایکٹ میں پارلیمنٹ کا مسئلہ ازخود نوٹس یا آرٹیکل 184 تھری سے متعلق طریقہ کار بنانا تھا،پارلیمنٹ نے ایکٹ میں ازخودنوٹس سے نکل کر ہر طرح کے کیس کے لیے ججز کمیٹی بنا دی،ایک دم سے ساری چیزیں اوپر نیچے کرنا پارلیمنٹ کے لیے ٹھیک نہیں تھا،پارلیمنٹ کے اختیار استعمال کرنے کا بھی کوئی طریقہ کار ہونا چاہیے تھا،اگر غلطیاں سپریم کورٹ میں ہیں تو پارلیمنٹ کی بھی ہیں،جو مسئلہ تھا پارلیمنٹ اس کو ٹھیک کرتی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں اداروں کی عزت رکھنی چاہیے،پارلیمنٹ ایک سٹیپ آگے جا سکتی تھی لیکن نہیں گئی،پارلیمنٹ کو ہمارے اوپر اعتماد تھا کہ ہم کریں گے،دنیا جو ہے وہ ساتھ مل کے چلتی ہے،پارلیمنٹ ہماری دشمن نہیں ہے نہ ہم پارلیمنٹ کے دشمن ہیں،ہم مل کے چل سکتے ہیں اداروں کو لڑانے کی کوشش نہ کریں،آپ آئین پر فوکس رکھیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آئین چیف جسٹس کو ماسٹر آف روسٹر تسلیم نہیں کرتا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ماسٹر آف روسٹر کی اصلاح پہلی بار آئی کہاں سے؟انگلستان سے ہم سیکھتے ہیں کیا وہاں استعمال ہوتا ہے؟جیسے آئین کا ماخذ میگنا کارٹا ہے ماسٹر آف روسٹر کا کیا ہے؟
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ سکول کے زمانے میں ماسٹر کا سنا تھا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ ماسٹر تو ایک ہی ہے اوپر والا،نوآبادیاتی نظام سے ہی ماسٹر کی اصلاح لینی ہے؟ہم تو 14 سو سال پہلے کی طرف دیکھتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ یہ اصطلاح پسند آئے یا نہ آئے میں اسے شارٹ ہینڈ استعمال کرتا ہوں،اس ایکٹ کیمطابق بھی ماسٹر آف روسٹر تو 3 ججوں کی کمیٹی ہی ہے نا؟اس میں نہ جائیں کیا نوآبادیاتی ہے کیا نہیں ہمارے سامنے جو ہے اس پر فوکس کریں،3 ججوں کو اختیار دیا گیا اس کو فل کورٹ کر دیں نا،کسی کو شکایت ہے پہلے فل کورٹ نہیں ہوتی تھی تو اب کر لیں کس نے روکا ہے؟ہم کہتے ہیں رولز بنانا فل کورٹ کا اختیار ہے آپ نے اسے 3 رکنی کمیٹی میں جکڑ دیا۔
یاد رہے کہ تمام درخواست گزاروں اور سیاسی جماعتوں کے دلائل بھی مکمل ہو گئے،پی ٹی آئی کے سوا تمام سیاسی جماعتوں نے ایکٹ کی حمایت کی،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے ایکٹ کی مخالفت، پاکستان بار نے حمایت کی۔
گزشتہ روز پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواست پر فیصلہ متوقع تھا تاہم ایم کیوایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل کے دوران ججز کے باربار سوالات اور پھر وکیل کی جانب سے جواب پر سماعت کا دورانیہ طویل ہوگیا، اور فیصلہ نہ ہوسکا۔