ایک نیوز نیوز : سپریم کورٹ نے 23 سال کے ہائی پروفائل کرپشن کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا۔
تفصیلات کے مطابق نیب قانون میں حالیہ ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میںجسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل 3 رکنی بنچ نے سماعت کی۔
دوران سماعت پی ٹی آئی وکیل وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف انتہائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ اس پر جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں۔ وکیل نے استدعا کی کہ معاملہ اہم سیاسی رہنماؤں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو، وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے جعلی بینک اکاؤنٹس کیسز میں بھی بے نامی کا معاملہ تھا، معاشی پالیساں ایسی ہونی چاہییں کہ بنیادی حقوق متاثر نہ ہوں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ معاشی پالیسیوں کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے۔ اگر کسی سے کوئی جرم سرزد ہوا ہے تو قانون میں مکمل شفاف ٹرائل کا طریقہ کار موجود ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ عوام کے اثاثوں کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے۔ بے تحاشا قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح متاثر ہوا ہے۔ قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا۔ زیادہ تر غیر ضروری اخراجات ایلیٹ کلاس کی عیاشی پر ہوئے۔ ملک میں 70 سے 80 فیصد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ عدالت حکومت کو قرض لینے سے نہیں روک سکتی۔ معیشت کے حوالے سے فیصلے کرنا ماہرین ہی کا کام ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے نظام میں مناسب ریگولیٹر موجود نہیں۔دنیا میں جائیداد اور دولت پر ٹیکس لیا جاتا ہے، ہمارے ہاں 2001ء میں ویلتھ ٹیکس کو ختم کردیا گیا۔ ملک میں جائیداد بنانے پر کوئی کنٹرول نہیں، نہ احتساب ہے ۔ یہ سب نکات ہیں جو سیاسی نوعیت کے ہیں ،جو پارلیمان نے طے کرنے ہیں۔
چیف جسٹس نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ معیشت پالیسی کا معاملہ ہوتا ہے جس میں عدالت مداخلت نہیں کر سکتی۔ عوام کے اثاثوں کی حفاظت ریاست کی ذمے داری ہے۔ بے تحاشا قرض لینے کی وجہ سے ملک بری طرح متاثر ہوا ہے۔ قرضوں کا غلط استعمال ہونے سے ملک کا یہ حال ہوا۔
بعد ازاں عدالت نے ریکارڈ طلب کیا کہ اب تک کتنے ایسے کرپشن کے کیسز ہیں، جن میں سپریم کورٹ تک سزائیں برقرار رکھی گئیں؟ اب تک نیب قانون کے تحت کتنے ریفرنسز مکمل ہوئے؟،نیب قانون میں تبدیلی کے بعد کتنی تحقیقات مکمل ہوئیں؟۔عدالت نے نیب سے 1999ء سے لے کر جون 2022ء تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔