فوجی عدالتوں میں سویلین ٹرائل کیس: ملزمان سے غیرانسانی سلوک نہ کیا جائے،سپریم کورٹ 

Jul 11, 2024 | 17:33 PM

ویب ڈیسک: سپریم کورٹ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف کیس میں حکم دیا ہے کہ ملزمان سے غیر انسانی سلوک نہیں کیا جائے، جسٹس امین الدین نے استفار کیا کہ زیرحراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جارہی؟ جسٹس جمال الدین نے کہا کہ جن سے تفتیش مکمل ہوچکی انہیں جیلوں میں منتقل کریں۔

جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 7 رکنی لارجر بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کالعدم قرار دینے کے فیصلے کے خلاف کیس کی سماعت کی۔

جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت اور جسٹس شاہد بلال بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر اٹارنی جنرل منصور اعوان اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آگئے، انہوں نے بتایا کہ ملزمان کے ساتھ میٹنگ فکس ہیں، صرف لاہور میں ملاقات کا مسئلہ بنا تھا، حسان نیازی لاہور میں ہیں، میں نے متعلقہ حکام کو تجویز دے دی ہیں۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر تفتیش مکمل ہوگئی تو جوڈیشل کسٹڈی میں کیوں ہیں؟ پھر تو معاملہ ہی ختم ہوگیا، انسانوں کے ساتھ انسانوں والا سلوک کریں۔

جسٹس عرفان سعادت نے ریمارکس دیے کہ انسانوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ نہ کریں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ پہلے بتاتے تھے ہر ہفتے ملزمان کی فیملی سے ملاقات ہوتی ہے، آپ اس کو جاری کیوں نہیں رکھتے؟ اٹارنی جنرل آپ کا بیان عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔

اس موقع پر وکیل لطیف کھوسہ نے بتایا کہ میاں عباد فاروق فوجی تحویل میں ہیں، ان کے 5 سال کے بیٹے کی وفات ہوئی ہے مگر اس کے باوجود بھی میاں عباد فاروق کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کروائی کہ آج ان کی ملاقات ہو جائے گی، آج حفیظ اللہ نیازی صاحب کی بھی اپنے بیٹے سے ملاقات ہونی ہے۔

بعد ازاں جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ہر سماعت پر ہمارا آرڈر درکار ہے؟ جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ ملزمان کا اگر جسمانی ریمانڈ ختم ہو گیا ہے تو وہ جیل میں کیوں نہیں ہیں؟ جس پراٹارنی  جنرل نے بتایا کہ ملٹری کورٹس میں جوڈیشل ریمانڈ نہیں دیا جاتا۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ اہل خانہ سے ملاقاتیں کرانے کے لیے فوکل پرسن کون ہے؟

اس موقع پر ڈائریکٹر لا بریگیڈیئر عمران عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایک نمبر ملزمان کے اہلخانہ کو دیا گیا ہے جس پر وہ رابطہ کرسکتے ہیں، وہ نمبر ہر وقت رابطے کے لیے میسر رہتا ہے۔

جسٹس حسن اظہر رضوی نے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کوئی تفصیلات ہیں ملزمان کے اہلخانہ سے متعلق؟ جس پر ڈائریکٹر لاء نے جواب دیا کہ میرے پاس اس وقت تفصیلات نہیں ہیں۔

جسٹس حسن اظہر علی نے مزید کہا کہ جن کے بچے کی وفات ہوئی ہے انہیں اہلخانہ سے فوری طور پر ملوایا جائے۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے وفاقی حکومت کی جانب سے دلائل کا آغاز کر دیا۔

زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ جسٹس امین الدین
جسٹس امین الدین خان نے اٹارنی جنرل سے دریافت کیا کہ زیر حراست افراد کی اہلخانہ سے ملاقات کیوں نہیں کرائی جا رہی؟ جس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے بتایا کہ متعلقہ حکام کو بتایا تھا کہ ملاقات کرانے کا حکم عدالت کا ہے، تسلیم کرتا ہوں کہ ملاقاتوں کا سلسلہ نہیں رکنا  چاہئے تھا، آج 2 بجے زیرحراست افراد کو اہلخانہ سے ملوایا جائے گا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ جن سے تفتیش مکمل ہوچکی وہ جیلوں میں کیوں نہیں بھیجے گئے؟ تفتیش کے لیے متعلقہ اداروں کے پاس ملزم رہے تو سمجھ آتی ہے، تفتیش مکمل ہوچکی تو ملزمان کو جیلوں میں منتقل کریں، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جیلوں میں منتقلی میں کچھ قانونی مسائل بھی ہیں۔

جسٹس عرفان سعادت خان نے ریمارکس دیئے کہ انسانوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک نہیں ہونا چاہئے ، ہم چاہتے ہیں کم ازکم آج اس کیس کی میرٹ پرسماعت شروع کریں، لطیف کھوسہ صاحب آپ بیٹھ جائیں کیس کو شروع ہونے دیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اپیل میں عدالت نے اصل فیصلہ میں غلطی کو دیکھنا ہوتا ہے، اٹارنی جنرل آپ کوہمیں اصل فیصلہ میں غلطی دکھانا ہوگی۔

اس موقع پر جسٹس شاہد وحید اور جسٹس محمد علی مظہر کے درمیان جملوں کا تبادلہ ہوا، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ آپ ہمیں غلط دکھائے بغیر ہم سے نیا اور الگ فیصلہ چاہتے ہیں، جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ اپیل میں اگر کیس آیا ہے، تو پھر سب کچھ کھل گیا ہے، اس پر جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ یہ نکتہ نظر میرے ساتھی کا ہوسکتا ہے میرا نہیں، ہمیں اس اپیل کا سکوپ دیکھنا ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سیکشن 5 کے تحت اپیل کا اسکوپ وسیع ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ ہم اپیل میں اس کیس کو ریمانڈ بھی کرسکتے ہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا کہ آپ کے پاس ریمانڈ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ آپ یہ کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اپیل میں فیصلہ کالعدم برقرار یا ریمانڈ کیا جاسکتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ اپیل کا سکوپ وسیع ہے تو آگے بڑھیے ، جسٹس عرفان سعادت خان نے بتایا کہ اٹارنی جنرل صاحب ایک جواب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ اپیل ہے، ریویو نہیں۔

بعد ازاں اٹارنی جنرل نے دلائل دیے کہ وفاق یہاں عدالت کے سامنے ایک قانون کا دفاع کرنے کھڑا ہے، عدالت کو اس بات کو سراہنا چاہیے، جس قانون کو کالعدم کیا گیا وہ ایسا تنگ نظر قانون نہیں تھا جیسا کیا گیا۔

اس پر اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کی کالعدم شقوں سے متعلق دلائل دیئے ۔

جسٹس شاہد وحید نے دریافت کیا کہ کیا اپیل کا حق ہر ایک کو دیا جا سکتا ہے؟ ہر کسی کو اپیل کا حق دیا گیا تو یہ کیس کبھی ختم نہیں ہوگا، کل کو عوام میں سے لوگ اٹھ کر آجائیں گے کہ ہمیں بھی سنیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ایک قانون سارے عوام سے متعلق ہوتا ہے، جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ متاثرہ فریق ہونا ضروری ہے اپیل دائر کرنے کے لیے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ اس حد تک جسٹس شاہد وحید سے متفق ہوں، متاثرہ فریق ہونا لازم ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا اس کیس میں اپیل دائر کرنے کیلئے وفاقی کابینہ سے منظوری ضروری نہیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ کابینہ منظوری لازمی نہیں ہے۔

اس موقع پر اٹارنی جنرل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل سننے کی استدعا کر دی اور کہا کہ عدالت کے کوئی سوالات ہوئے تو میں موجود ہوں گا۔

بعدازاں وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آگئے، جسٹس امین الدین نے کہا کہ خواجہ صاحب ایک دو چیزیں پہلے نوٹ کر لیں، بظاہر یہ کیس عدالت میں 9 مئی واقعات پر آیا، اس کیس میں کیا قانونی شقیں چیلنج ہوسکتی تھی۔

فیصل صدیقی ایڈووکیٹ ویڈیو لنک پر عدالت پیش ہوئے اور کہا کہ میں نے متفرق درخواست دائر کر رکھی ہے، خواجہ حارث کے دلائل سے پہلے میری درخواست نمٹائیں ورنہ غیرمؤثر ہوجائے گی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ پہلی بار تو نہیں ہوا کہ پراییویٹ وکیل حکومت کی جانب سے آیا ہو، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت کی باراس پریکٹس کی حوصلہ شکنی کرچکی ہے۔

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اٹارنی جنرل کواختیارہے جس وکیل سے چاہے معاونت لےسکتا ہے۔

خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت
عدالت نے خواجہ حارث کو وزارت دفاع کی جانب سے دلائل دینے کی اجازت دے دی جس پر وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

جسٹس شاہد وحید نے استفسار کیا کہ کیا فرد جرم سے پہلے کیس ٹرانسفر ہوسکتا ہے؟ جسٹس محمد علی مظہر نے بتایا کہ کیس فرد جرم سے پہلے یا بعد میں کسی بھی وقت ٹرانسفر ہوسکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے خواجہ حارث سے مکالمہ کیا کہ کیس کے دائرہ اختیار کے حوالے سے بھی ہمیں آگاہ کریں۔

اسی کے ساتھ عدالت نے کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردی، عدالت نے ریمارکس دیے کہ بینچ کی دستیابی پر کیس دوبادہ سماعت کے لیے مقرر ہوگا۔ 

مزیدخبریں