کارروائی بحال،سپریم جوڈیشل کونسل کاجسٹس (ر)مظاہرنقوی کونوٹس جاری

Jan 11, 2024 | 15:56 PM

JAWAD MALIK

ایک نیوز: چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل اجلاس میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ کوئی جج مستعفی ہو جائے تو کونسل رولز کے مطابق اس کیخلاف مزید کارروائی نہیں ہو سکتی۔بعد ازاں سپریم جوڈیشل کونسل نےجسٹس ریٹائرڈ نقوی کے کیخلاف شکایات پر کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔کونسل نے مظاہر نقوی کو کارروائی میں شامل ہونے کیلئے اطلاع کا نوٹس جاری کردیا۔

تفصیلا ت کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہوا،کونسل کے ممبر جسٹس اعجاز الاحسن اجلاس میں شریک نہیں ہوئے۔

جسٹس امیرحسین بھٹی، جسٹس نعیم افغان بلوچ اور جسٹس سردار طارق مسعود شریک ہوئے،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کا کوئی وکیل اجلاس میں پیش نہ ہوا،جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے گزشتہ روز استعفیٰ دیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ جسٹس اعجاز الاحسن اجلاس میں بیٹھنا نہیں چاہتے، چیف جسٹس پاکستان نے اٹارنی جنرل کو مظاہر علی اکبر نقوی کا استعفیٰ پڑھنے کی ہدایت کی۔

اٹارنی جنرل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے استعفیٰ کا متن پڑھ کر سنایا۔

متن میں کہا گیاہے کہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد وزارت قانون و انصاف نے استعفیٰ منظوری کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔

چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ استعفیٰ سے متعلق آئین کا آرٹیکل 179کیا کہتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے اجلاس میں آرٹیکل 179بھی پڑھ کر سنایا۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ آرٹیکل 209کو بھی استعفیٰ کے تناظر میں پڑھیں۔

اٹارنی جنرل نے کہاکہ کوئی جج مستعفی ہو جائے تو کونسل رولز کے مطابق اس کیخلاف مزید کارروائی نہیں ہو سکتی۔

چیف جسٹس نے کونسل کی کارروائی میں مختصر وقفہ کرتے ہوئے کہا کہ کونسل کے ایک ممبر جسٹس اعجاز الاحسن اجلاس میں شریک نہیں، ان کے بعد سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ ہیں، ہم جسٹس منصور سے انکی دستیابی کا پوچھ لیتے ہیں، اگر وہ دستیاب ہوئے تو کونسل کی کارروائی کو آگے بڑھایا جائے گا۔

وقفے کے بعد چیئرمین جوڈیشل کونسل کی سربراہی میں اجلاس دوبارہ شروع ہوا تو جسٹس منصور علی شاہ بطور ممبر کونسل اجلاس میں شریک ہوگئے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب معاونت کریں کیا معاملہ ختم ہوگیا،یہ استعفی کونسل کارروائی کے آغاز میں نہیں دیا گیا، کونسل کی جانب سے شوکاز جاری کرنے کے بعد استعفی دیا گیا،ممکن ہے درخواستیں غلط ہوں اور جج نے دباؤ پر استعفیٰ دیا ہو،جج کی جانب سے دباؤ پر استعفی دینے سے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا،یقینی طور پر جج کو عہدے سے ہٹانے کی کارروائی تو ختم ہو گئی،استعفی دینا جج کا ذاتی فیصلہ ہے، ہمارے سامنے غیر معمولی صورتحال ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ جج کی برطرفی کا سوال اب غیر متعلقہ ہو چکا ہے، ابھی تک کونسل نے صدر مملکت کو صرف رپورٹ بھیجی تھی، اگر الزامات ثابت ہوجاتے تو کونسل صدر مملکت کو جج کی برطرفی کیلئے لکھتی۔ 

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ اس صورتحال پر آپ کی کیا رائے ہے،کونسل نے اب کوئی نا کوئی فائنڈنگ تو دینی ہے،اگر کوئی جج سپریم کورٹ کی ساکھ تباہ کر کے استعفی دےجائے تو کیا اس سے خطرہ ہمیں نہیں ہو گا؟اپنی تباہ ساکھ کی سرجری کیسے کریں گے؟ کیا آئین کی دستاویز صرف ججز یا بیوروکریسی کے لیے ہے؟ آئین پاکستان عوام کے لیے ہے۔
اٹارنی جنرل  نے کہا کہ عوامی اعتماد کا شفافیت سے براہ راست تعلق ہے،کونسل کے سامنے سوال یہ ہے کہ جج کے استعفے کا کارروائی پر اثر کیا ہو گا،جج کو ہٹانے کا طریقہ کار رولز آف پروسجر 2005 میں درج ہیں،سپریم کورٹ کے 2 رکنی بنچ نے جون 2023 میں فیصلہ دیا کہ جج ریٹائر ہو جائے تو اس کے خلاف کارروائی نہیں ہو سکتی،کیس میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے خلاف شکایتی معلومات سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجی گئیں،کونسل میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے شکایت پر کارروائی نہیں کی،ثاقب نثار کے خلاف کارروائی نا ہونے پر آئینی درخواست 2020 میں دائر ہوئی اور فیصلہ 2023 میں ہوا۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ ثاقب نثار کے معاملے میں تو کارروائی شروع نہیں ہوئی تھی جبکہ اب ہو چکی۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا معاملہ ہے جس کا سامنا سپریم جوڈیشل کونسل کر رہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان  نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ سپریم جوڈیشل کونسل رائے نہیں دے سکتی،اگر کونسل میں سے جج کا کوئی دوست کارروائی کے آخر دن بتا دیتا کہ برطرف کرنے لگے اور وہ استعفی دے جائے تو کیا ہو گا؟اٹارنی جنرل کی اس بارے میں کیا رائے ہے؟۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کارروائی کے دوران جج کا استعفی دے جانا اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، جو فیصلہ جون 2023 میں آیا وہ 2 رکنی بنچ کا تھا جبکہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر آنے کے بعد آئینی معاملات پر یہ بنچ نہیں دے سکتا تھا۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے اجلاس کل ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کرتے ہوئے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور خواجہ حارث کو نوٹس جاری کر دیا۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے کہا کہ جسٹس (ر) مظاہر نقوی کل خود یا وکیل کے ذریعے پیش ہو سکتے ہیں۔
سپریم جوڈیشل کونسل نےجسٹس ریٹائرڈ نقوی کے کیخلاف شکایات پر کارروائی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔کونسل نے مظاہر نقوی کو کارروائی میں شامل ہونے کیلئے اطلاع کا نوٹس جاری کردیا۔

مزیدخبریں