ایک نیوز: پشاور ہائیکورٹ کے احاطے میں عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان نے اے این پی رہنما ایمل ولی خان کے خلاف توہین عدالت کی درخواست دینے والے درخواست گزار فضل محمد خان پر تشدد کیا ہے۔
پشاور ہائیکورٹ میں اے این پی کے رہنما ایمل ولی خان توہین عدالت کی درخواست پر سماعت کے دوران عدالت میں پیش ہوئے تو کمرہ عدالت میں رش لگ گیا اور عدالت کے باہر شور شرابہ شروع ہوگیا، جس پر چیف جسٹس برہم ہوگئے اور کہا کہ ’ان کو خاموش کریں ورنہ کیس نہیں سنوں گا۔‘
چیف جسٹس نے پولیس کو حکم دیا کہ ’حالات نارمل کرلیں پھر کیس سنوں گا۔‘ اور اٹھ کر اپنے چیمبر میں چلے گئے۔
ایمل ولی خان کے خلاف درخواست گزار، پی ٹی آئی کے سابق ممبر قومی اسمبلی فضل محمد خان عدالت پہنچے تو عوامی نیشنل پارٹی کے کارکنان نے انہیں گھیر لیا۔ اے این پی کارکنان فضل محمد خان کے ساتھ لڑ پڑے اور ان پر تشدد کیا، جس پر وہاں پر موجود لوگوں اور پولیس نے فضل محمد خان کو ہجوم سے نکالا اور محفوظ جگہ پر منتقل کیا۔
کیس کی سماعت کے دوران ایمل ولی خان کے وکیل بیرسٹر عامر خان چمکنی نے موقف اختیار کیا کہ وہ عدالت کا احترام کرتے ہیں۔
چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ نے ریمارکس دیے کہ ویڈیو میں انہوں نے بہت باتیں کی، میرے بارے میں جو کہا اس کو چھوڑیں، انہوں نے چیف جسٹس کے بارے میں جو کہا اس پر افسوس ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے لیے تمام پارٹیاں محترم ہے، میں 2024 میں ریٹائرڈ ہوجاؤں گا، میں نے کسی پارٹی کو جوائن نہیں کیا۔
انہوں نے ایمل ولی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ بہت چھوٹے ہیں، میرا بیٹا بھی آپ کا ہم عمرہے، آپ میرے بچے جیسے ہیں۔ ایمل ولی خان نے کہا کہ میں نے صرف گلہ کیا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مرد گلہ نہیں کرتے، عورتوں کا کام ہے گلہ کرنا، گلے چھوڑیں، آپ ہمارے پاس آجاتے، آپ کو جو کہنا تھا ہمیں یہاں آکر بتاتے۔
ایمل ولی خان کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ’ہمارے کیس یہاں نہیں لگتے, ایمل ولی خان نے کیس دائر کیا ہے وہ نہیں لگتا۔‘
ایمل ولی خان نے کہا کہ ایک پارٹی کے کیسز لگتے ہیں ہمارے کیس نہیں لگتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ’وہ میں آپ کو بتاتا ہوں، آپ کا کیس 2دفعہ لگا آپ کے وکیل پیش نہیں ہوئے، اس وجہ سے سماعت ملتوی کردی گئی، کیا آپ میرے پاس کبھی آئے ہیں کہ یہ کیس سماعت کے لیے مقرر کرلیں؟‘
ایمل ولی خان نے کہا کہ ’ میں عدالت کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا، عدالتوں کا احترام کرتے ہیں، آپ ہمارا میڈیا ٹرائل کررہے ہیں۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’ آپ بحث کررہے ہیں تو میں اس کیس کو لارجر بینچ کے سامنے بھیجتا ہوں۔‘ بیرسٹر عامر خان چمکنی نے کہا کہ ہم معذرت کرتے ہیں، عدالت نے بڑے تحمل سے ہمیں سنا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ باچا خان اور ولی خان صرف آپ کے دادا نہیں ہیں، وہ ہم سب کے دادا ہے، آپ جائیں اور اسی انداز میں بیان دیں، جو آپ نے کہا ہے اس کی تردید کردیں۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’ آپ کا بیان کہ میرے فیملی والے مجھے کہتے ہیں کہ ہم پشاور چھوڑ دیں، میں نے ان کو کہا کہ یہ پٹھان ہے تو ہم بھی پٹھان ہیں۔‘
چیف جسٹس کے بیان پر عدالت میں قہقے لگ گئے۔
پشاور ہائیکورٹ روانگی سے قبل رہنما اے این پی ایمل ولی خان نے اپنے بیان میں کہا کہ وہ چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ سے متعلق بیان پر اب بھی قائم ہیں۔
بعد ازاں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’ میں اب بھی اپنی باتوں سے پیچھے نہیں ہٹا ہوں، جو میں نے بات کی ہے وہ زبان زد عام ہے، مطالبہ ہے کہ چیف جسٹس سمیت تمام ججز ہمارے شکوے دور کریں۔‘
ایمل ولی خان نے کہا کہ ’ یہ پی ٹی آئی ہائیکورٹ نہیں بلکہ یہ تاثر ملنا چاہیے کہ یہ پشاور ہائیکورٹ ہے، عدالت میں جوہوا سب کے سامنے ہے، میرا گلہ ہے، تھا اور رہے گا۔‘
رہنما اے این پی نے کہا وہ پارٹی کے ذمہ دار ہیں اور چاہتے ہیں کہ الیکشن ہوں۔ ’ سینیٹ میں انتخابات سے متعلق ہمارا کوئی سینیٹر موجود نہیں تھا، جہاں تک الیکشن کی سیکیورٹی کا سوال ہے ہم نے اس سے بھی برے حالات میں الیکشن لڑے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’کچھ سخت الفاظ بول گیا لیکن مجھ سے توہین عدالت کی توقع نہ رکھیں، ہم نے عدالیہ کی آزادی کے لیے خون دیا ہے۔‘