ویب ڈیسک: دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان مولانا فضل الرحمان کے دورہ افغانستان کو سپورٹ نہیں کر رہی، افغانستان کے دورے سے واپسی پر ان سے بریفنگ لیں گے۔
ترجمان دفتر خارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار پریس بریفنگ کے دوران جمعیت علماء اسلام کے وفد کے دورہ افغانستان سے متعلق سوال پر کہا کہ مولانا فضل الرحمان نجی حیثیت میں افغانستان گئے ہیں، حکومت پاکستان اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمان کے دورے کو سپورٹ نہیں کر رہی، مولانا فضل الرحمان کے دورے اور ملاقاتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کریں گے، یہ ایک نجی دورہ ہے، دورے کے بعد مولانا فضل الرحمان سے بریفنگ لیں گے۔
ان کا کہنا تھا پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی سے ڈائیلاگ میں دلچسپی نہیں رکھتا، پاکستان کے اندر کالعدم ٹی ٹی پی نے دہشتگردی کے کئی حملے کیے، ہماری ڈیمانڈ وہی ہیں کہ دہشتگردوں کے خلاف افغانستان کی عبوری حکومت ایکشن لے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ڈائیلاگ اور ڈپلومیسی میں یقین رکھتا ہے، افغان وزیر کامرس کے دورے کے دوران مختلف امور پر تبادلہ خیال ہوا، امید ہے ڈائیلاگ کے ذریعے خطے میں امن و استحکام آئے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پہلی مرتبہ گلوبل ہیلتھ سکیورٹی کانفرنس اسلام آباد میں ہوئی، گلوبل ہیلتھ سکیورٹی کانفرنس میں 70 سے زائد وفود نے شرکت کی، نگران وزیر خارجہ نے مستقبل کے وبائی امراض کے خلاف عالمی شراکت داری پر روشنی ڈالی، کانفرنس کا اختتام آج اسلام آباد میں اعلامیہ کے ساتھ ہوگا۔
غزہ کی صورت حال پر گفتگو کرتے ہوئے ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا جنوبی افریقا کے اسرائیل کو عالمی عدالت انصاف میں لے جانے کو پاکستان سراہتا ہے اور ہم جنوبی افریقا کی مکمل حمایت کرتے ہیں، پاکستان جنوبی افریقا کے اس قانونی عمل کو بروقت سمجھتا ہے اور غزہ میں فوری جنگ بندی اور فلسطینیوں کا قتل عام رکوانے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے ایک بار پھر وضاحت کی کہ ہم فلسطین کے دو ریاستی حل پر یقین رکھتے ہیں، ایسا حل جس میں فلسطین کی1967 سے قبل کی سرحدیں ہوں اور القدس بطور دارالحکومت ہو۔
مسئلہ کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ممتاز زہرہ بلوچ کا کہنا تھا 70 سال سے بھارت کشمیریوں کے حق خودارادیت سے انکار کر رہا ہے، بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریہ کی کتاب نہیں پڑھی تاہم اجے بساریہ کے بیان سے متعلق میڈیا رپورٹ دیکھی ہیں، پلوامہ کا ڈرامہ سیاسی گیم کے لیے کیا گیا تھا، ایک پروفیشنل سفارتکار کی جانب سے ایسا بیان حیران کن ہے، یہ بھارت کی فسطائی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔