ایک نیوز: مرحوم ارشد شریف کی ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ ایک انٹرویو پر اتنے مقدمات کیسے درج ہوں گے،یہی کرنا تھا تو پہلے ہی شخصی آزادی نہیں دینی تھی،سٹیٹ کو ایسے کام کرنے ہی نہیں چاہئیں کہ اس پر لوگ ٹریٹ کریں یا بولیں،کسی کے خلاف اتنے مقدمات درج کرنا قانون کا مذاق ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تو ایک واقعے پر دوسرے ایف آئی آر نہیں ہو سکتی۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں مرحوم ارشد شریف کی ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیلات فراہمی کی درخواست پر سماعت ہوئی،اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے درخواست پر سماعت کی.
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ ارشد شریف پر کتنے مقدمات تھے؟
وکیل شعیب رزاق نے کہاکہ آخری اطلاع کے مطابق ارشد شریف پر 16 مقدمات تھے،ارشد شریف پر دہشتگردی ، ریاست مخالف سرگرمیوں کے مقدمات تھے،گوادر اور ملک کے دور دراز علاقوں میں یہ مقدمات درج ہو رہے تھے،ہمیں تو نہ مقدمات کی کاپی اور نہ ہی تفصیلات دی جارہی تھیں۔
عدالت نے ارشد شریف کی درخواست شہادت کے باعث غیر موثر قرار دے دی.عدالت نے سمیع ابراہیم اور معید پیرزادہ کیخلاف ملک بھر میں درج مقدمات کی تفصیلات بھی 14 فروری کو طلب کر لیں۔ سمیع ابراہیم اور ڈاکٹر معید پیر زادہ کے خلاف ایک ہی الزام پر درج کیے گئے مقدمات کی تفصیلات طلب کی گئیں۔عدالت نے حکم جاری کیا کہ حکومت وضاحت دے ایک ایشو پر متعدد ایف آئی آر کیسے درج ہوئیں?.
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ ایک اینکر یا صحافی کے انٹرویو کی بنیاد پر بہت سے مقدمات درج ہو جاتے ہیں،کیا 25کروڑ عوا م نے انٹرویو کے الفاظ سنے تو 25کروڑ مقدمات درج ہوں گے؟کیا ایک گوادر، ایک سبی ایک حیدر آباد میں مقدمہ درج کروائے گا،اس طرح ملک بھر میں مقدمات کا اختیارات سے تجاوز ہے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے جو پہلی ایف آئی آر کسی ایکٹ پر ہوگی اس کی ہی پیروی ہوگی، یہ کام تو بھیڑبکریوں والا ہے، ایسے ہی عوام کو ٹریٹ کیا جاتا ہے، گوادر سبی اور پسنی میں مقدمات درج کرا دیئے گئے،ایک انٹرویو پر اتنے مقدمات کیسے درج ہوں گے،یہی کرنا تھا تو پہلے ہی شخصی آزادی نہیں دینی تھی،سٹیٹ کو ایسے کام کرنے ہی نہیں چاہئیں کہ اس پر لوگ ٹریٹ کریں یا بولیں،کسی کے خلاف اتنے مقدمات درج کرنا قانون کا مذاق ہے،سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق تو ایک واقعے پر دوسرے ایف آئی آر نہیں ہو سکتی۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی غلط کام ہوا ہے تو غلط کام پر پراسیکیوٹ ہونا چاہئے،ریاست کو ایسے کام نہیں کرنے چاہئیں کہ لوگ کمنٹ کریں اور پھر اس کے نتائج نکلیں ،جرنلسٹ کیخلاف کارروائی ہو سکتی ہے مگر اس کا طریقہ کار موجود ہے،آئندہ سماعت پر بتائیں کہ ایف آئی آرز کا سٹیٹس کیا ہے؟کیا ایک ہی ٹوئٹ یا انٹرویو پر مقدمات درج ہوئے؟تمام ایف آئی آرز کو ریکارڈ پر رکھیں، تربت اور پسنی والے ہی باخبر ہیں صرف، اسلام آباد والے نہیں؟اس کا دوسرا نکتہ بھی ہے کہ سٹیٹ وہاں پر وٹیکٹ نہیں کر سکتی،یہ کہنا بہت آسان ہے کہ انڈیا اور اسرائیل فنڈنگ کررہا ہے،ریاست کا کام ہے کہ قانونی کارروائی کرے، کہنا بڑا آسان ہے کہ کوئی کسی سے پیسے لے کر یہاں بیٹھا ہوا ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیئے کہ سٹیٹ نے سپریم کورٹ میں کھڑے ہو کر اپنے جرم کا اعتراف کرلیا ہے،اغوا پر 7سال قید ہو جاتی ہے، یہاں سٹیٹ کے ادارے اغوا کررہے ہیں مگر کوئی بات ہی نہیں۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے مزید ریمارکس دیئے کہ عدلیہ پر بھی تنقید ہوتی ہے۔عدالتوں نے اپنا کام کرکے دکھانا ہے اور یہی سب باتوں کا جواب ہے۔
بعد ازاں جسٹس محسن اختر کیانی نے کیس کی سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی۔