ممنوعہ فنڈنگ کیس:الیکشن کمیشن کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ 

Jan 11, 2023 | 16:02 PM

ایک نیوز: ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔ 

ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کی سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے سماعت کی۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس بابر ستار بھی بینچ میں شامل تھے۔ وفاق کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل عدالت میں پیش ہوئے۔ ڈی جی لاء الیکشن کمیشن اور  اکبر ایس بابر اپنے وکیل احمد احسن شاہ کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئے۔ تحریک انصاف کے وکیل انور منصور نے اپنے دلائل کا آغاز کیا۔ 

چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا پارٹی سربراہ اکاؤنٹس کی تفصیلات پر دستخط کرتا ہے؟ اس پر وکیل انور منصور نے کہا کہ پی ٹی آئی واحد جماعت ہے جس میں سربراہ نے دستخط کئے، باقی کسی جماعت میں ایسا نہیں۔ پارٹی لیڈر دستخط کرتا ہے لیکن وہ اکاؤنٹس کی مینجمنٹ نہیں کرتا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اکاؤنٹس کی تفصیلات چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تیار کرتا ہے؟ اس پر انور مںصور نے کہا کہ پارٹی کی کمیٹی تفصیلات تیار کرتی ہے پھر وہ چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ کے پاس جاتا ہے۔ دیگر جماعتوں میں کوئی جونیئر آدمی دستخط کرتا ہے کہیں کوئی اور۔

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عمران خان کے صادق اور امین نہ ہونے کا کوئی ڈیکلریشن تو نہیں دیا۔ آخر میں الیکشن کمیشن نے صرف ایک نتیجہ اخذ کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے دراصل ڈیکلیریشن ہی دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کا اختیار نہیں تھا کہ وہ ایسا ڈیکلیریشن دے۔ 

چیف جسٹس نے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے جو کہا وہ محض آبزرویشن ہے۔ اس پر انور مںصور کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نے “ہولڈ” کا لفظ استعمال کیا ہے۔ 

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے مکامہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو شوکاز دیئے بغیر وہ ایسا کیسے کرسکتے ہیں؟ انور منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے کہا کہ عمران خان کا ڈیکلریشن غلط ہے۔ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو فارن ایڈڈ پارٹی قرار دیا۔ الیکشن کمیشن کے پاس یہ ڈکلیئریشن دینے کا اختیار نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کوئی ڈکلیئریشن تو دیا ہی نہیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس جاری کرنے سے پہلے کسی نتیجے پر تو پہنچنا تھا۔ الیکشن کمیشن اس نتیجے پر پہنچے بغیر شوکاز نوٹس جاری نہیں کر سکتا تھا۔ 

چیف جسٹس عامر فاروق نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن بھی شاید اتنا کچھ کرنے نہیں جا رہا جتنا آپ سمجھ رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن نے شوکاز نوٹس بھی رقم کی ضبطگی کا ہی دیا ہے۔ آپ کو خدشہ ہے کہ اس ڈکلیئریشن کی بنیاد پر عمران خان کو نااہل ہی نہ کر دیا جائے؟ 

دوران سماعت چیف جسٹس نے انور منصور کو عمران خان کو 'آئی کے' کہنے سے روک دیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ آئی کے کی بجائے مکمل نام لے سکتے ہیں۔ انور منصور نے اس پر جواب دیا کہ معمول کے مطابق آئی ہی نکل جاتا ہے۔

جسٹس میاں گل حسن نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے سوال کیا کہ شوکاز تو آپ نے صرف فنڈز کی ضبطگی پر دیا ہے۔ اس کے حتمی نتیجے میں صرف فنڈز ہی ضبط ہوں گے نا؟ وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ جی اس کارروائی کے حتمی نتیجے میں صرف فنڈز ہی ضبط ہو سکتے ہیں۔ 

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کو کیا ضرورت محسوس ہوئی پھر معاملہ حکومت کو ریفر کرنے کی؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم ریگولیٹر ہیں ہمارے علم میں جو بات آئی وہ آگے بتائی۔ 

جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیے کہ آپ کے پاس اختیار کیا تھا معاملہ وفاقی حکومت کو بھیجنے کا؟ کس قانون کے تحت آپ نے معاملہ وفاقی حکومت کو ریفر کیا؟ یہ تو ایک جماعت کیخلاف اپنا زہر نکالنے جیسا ہوا کہ حکومت کو بھیج دیا۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ وفاقی حکومت کو معاملہ نہ بھی بھیجتے تو فرق نہیں پڑنا تھا، آپ تو رُولز کے تحت صرف فنڈز ضبط کرنے کی کارروائی کر سکتے تھے۔ وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل میں کہا کہ ہم وفاقی حکومت کو نہ بھی معاملہ بھیجتے وہ کارروائی کرسکتے ہیں۔ رپورٹ اب پبلک ہے اس پر باقی کوئی بھی کارروائی کر سکتا ہے۔ 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ باقی کوئی کرے نہ کرے آپ کا کام تو نہیں تھا نا؟ آپ نے تو صرف آئینی طور پر اپنا کام کرنا تھا جو فنڈز ضبطگی تک محدود ہے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس میں کہا کہ آپ نے ہولڈ کر دیا ایک بندے کیلیے وہ سچا نہیں، کل کوئی اس پر باسٹھ ون ایف کی کارروائی شروع کر دے تو کیا ہو گا؟ اس دوران پی ٹی آئی نے شوکاز کا کامیاب دفاع کر لیا تو کیا ہوگا؟ 

وکیل الیکشن کمیشن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پی ٹی آئی نے دفاع کر لیا تو معاملہ خود ختم ہو جائے گا۔ جسٹس انور منصور نے کہا کہ یہی میں کہہ رہا تھا جب دفاع کا حق باقی ہے تو اور کوئی کارروائی کیسے ہو سکتی ہے؟وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہم اوپن مائنڈ کے ساتھ پی ٹی آئی کو شوکاز میں سنیں گے۔ اس پر انور منصور نے کہا کہ جس طرح سے الیکشن کمیشن میں کارروائی چل رہی ہے میں جانتا ہوں۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ سے آخری دو لائنیں حذف کر دیں۔ 

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن آپ کو موقع دے رہا ہے تو پھر آپ کیا چاہتے ہیں؟ الیکشن کمیشن کہہ رہا ہے جن پوائنٹس پر آپ مطمئن کریں گے وہ چیزیں حذف کر دیں گے۔ آپ دوبارہ فیصلے سے نہ مطمئن ہوئے تو آپ  پھر عدالت آسکتے ہیں۔

انور منصور کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن صرف فنڈنگ سے متعلق حذف کرنے کا کہتا ہے۔ میرا پوائنٹ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے قانون کی غلط تشریح کی۔

جسٹس بابر ستار نے ریمارکس دیے کہ یہ ایک سادہ سی بات ہے جس پر کہانی چھ سال سے چل رہی ہے، ہر جماعت نے فنڈز کی تفصیل فراہم کرنی ہے، الیکشن کمیشن جہاں مطمئن نہ ہو شوکاز کر کے فنڈز ضبط ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ آپ کو تو سکروٹنی کمیٹی رپورٹ کے بعد بھی سنا گیا، اصولاً تو آپ کا شوکاز والا مرحلہ بھی پہلے ہی گزر چکا، ابھی الیکشن کمیشن آپ کو سننے کیلئے پھر تیار ہے، آپ کو آخری دو سطروں پر اعتراض ہے اسے ہم دیکھیں گے۔

جسٹس میاں گل حسن نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آج لگتا ہے الیکشن کمیشن کے وکیل نئی ہدایت لیکر آئے، آج انہیں بتایا گیا کہ عدالت کو کہیں ہم نے جو فیصلہ کر لیا اسی پر رہنا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیا مائی لارڈ جو کہہ رہے ہیں الیکشن کمیشن کا وہی فیصلہ ہے؟ وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ جی ہم اپنے فیصلے پر نظرثانی نہیں کر سکتے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پھر شوکاز نوٹس جاری کرنے کا فائدہ کیا ہوا؟ پھر تو الیکشن کمیشن کیخلاف پی ٹی آئی کو ہم یہاں ہی سن لیتے ہیں۔

مزیدخبریں