ایک نیوز: آئی ایم ایف کے خصوصی وفد نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی سے ملاقات کی، چیف جسٹس نے وفد کو عدالتی نظام اور اصلاحات سے متعلق آگاہ کیا۔
ملاقات کے بعد صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عدالتی اصلاحات کیلئے ایجنڈا مانگا ہے، بانی پی ٹی آئی کے خط کے مندرجات سنجیدہ نوعیت کے ہیں، آئینی بینچ کمیٹی خط پر فیصلہ کرے گی، ججز پینک کر جاتے ہیں شائد انکو اعتبار نہیں رہا اس میں قصور میرا ہے، خط لکھنے والے ججز کو انتظار کرنا چاہیے تھا، ہمیں چیزوں کو مکس نہیں حل کرنا ہے، ہمیں سسٹم پر اعتبار کرنا ہوگا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی سے آئی ایم ایف کے چھ رکنی وفد نے ملاقات کی، ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس سے ملاقات تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہی، چیف جسٹس نے آئی ایم ایف وفد کو عدالتی نظام اور اصلاحات پر بریفنگ دی، چیف جسٹس کا کہنا ہے کہ ججز تقرری اور آئینی ترمیم پر بھی وفد سے بات چیت ہوئی۔
آئی ایم ایف کے وفد سے ملاقات کے بعد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے سپریم کورٹ کے صحافیوں سے بھی ملاقات کی۔
ملاقات میں چیف جسٹس یحییٰ آفریدی نے صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آج آئی ایم ایف وفد کی ملاقات پر بریف کروں گا، نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی پر بھی بات کروں گا، میں نے آئی ایم ایف وفد کو جواب دیا ہے کہ ہم نے آئین کے تحت عدلیہ کی آزادی کا حلف اٹھا رکھا ہے، یہ ہمارا کام نہیں ہے آپکو ساری تفصیلات بتائیں۔
میں نے وفد کو نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے ایجنڈے کا بتایا، میں نے وفد کو بتایا کہ ماتحت عدلیہ کی نگرانی ہائیکورٹس کرتی ہیں، وفد نے کہا معاہدوں کی پاسداری، اور پراپرٹی حقوق بارے ہم جاننا چاہتے ہیں، میں نے جواب دیا اس پر اصلاحات کر رہے ہیں، آئی ایم ایف کو بتایا کہ آپ بہترین وقت پر آئے ہیں، آئی ایم ایف وفد کوعدالتی ریفارمز، نیشنل جوڈیشل پالیسی سے آگاہ کیا۔
آئی ایم ایف وفد نے پروٹیکشن آف پراپرٹی رائٹس کے حوالے سے تجاویز دیں، چیف جسٹس نے کہا کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی پر بھی بات کروں گا، میں نے وفد کو بتایا ہم تجویز دیں گے، ہائیکورٹس میں جلد سماعت کیلئے بینچز بنائیں گے، میں نے وفد سے کہا جو آپ کہہ رہے ہیں وہ دو طرفہ ہونا چاہیے، وفد نے کہا ہم پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کا تحفظ چاہتے ہیں، میں نے وفد سے کہا ہمیں عدلیہ کیلئے آرٹیفشل انٹیلی جنس چاہیے ہوگی۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ مجھے وزیراعظم کا خط بھی آیا، وزیراعظم کو اٹارنی جنرل کے ذریعے سلام کا جواب بھجوایا اور پیغام دیا کہ انکے خط کا جواب نہیں دوں گا، میں نے اٹارنی جنرل کے ذریعے وز یر ا عظم کو پیغام بجھوایا اور کہا کہ میرا سلام وزیراعظم صاحب کو پہنچائیں، میں نے وزیراعظم صاحب کو بذریعہ اٹارنی جنرل کہا اپنی ٹیم کے ساتھ آئیں۔
ہم نے قائد خزب اختلاف سے بھی بڑی مشکل سے رابطہ کیا، وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کو سپریم کورٹ مدعو کیا ہے، ہم نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے عدالتی اصلاحات کیلئے ایجنڈا مانگا ہے، پاکستان ہم سب کا ملک ہے، چیف جسٹس نے بتایا کہ بانی پی ٹی آئی کا خط موصول ہوا ہے، خط کے مندرجات سنجیدہ نوعیت کے ہیں، بانی پی ٹی آئی نے خط کیساتھ دیگر مواد بھی لگایا ہے، بانی پی ٹی آئی جو ہم سے چاہتے ہیں، وہ آرٹیکل ایک سو چراسی کی شق تین سے متعلق ہیں، میں نے کمیٹی سے کہا اس خط کا جائزہ لیکر فیصلہ کریں، بانی پی ٹی آئی کا خط ججز آئینی کمیٹی کو بجھوایا ہے، وہ طے کریں گے۔
یہ معاملہ آرٹیکل ایک سو چراسی شق تین کے تحت آتا ہے، اسے آئینی بینچ نے ہی دیکھنا ہے، ملاقات کے دوران صحافیوں نے سوال کیے کہ بانی پی ٹی آئی کے خط کو ججز آئینی کمیٹی کو بھیجنے کیلئے کن وجوہات یا اصو لو ں کو مدنظر رکھا گیا، عدلیہ میں اختلافات کو ختم کرنے کیلئے کیا اقدامات کریں گے؟۔
چیف جسٹس نے کہا کہ خط لکھنے والی ججز کی پرانی چیزیں چل رہی ہیں، انھیں ٹھیک ہونے میں ٹائم لگے گا، پرانی چیزیں ہیں آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو جائے گا، خط لکھنے ولے ججز کی وجہ سے ایک اہل جج سپریم کورٹ کا حصہ بننے سے رہ گیا، چیف جسٹس کو لکھا جانیوالا خط مجھے ملنے سے پہلے میڈیا کو پہنچ جاتا ہے۔
ججز پینک کر جاتے ہیں شائد انکو اعتبار نہیں رہا اس میں قصور میرا ہے، خط لکھنے والے ججز کو انتظار کرنا چا ہیے تھا، ہمیں چیزوں کو مکس نہیں حل کرنا ہے، ہمیں سسٹم پر اعتبار کرنا ہوگا، میں نے ججز سے کہا سسٹم کو چلنے دیں، سسٹم کو نہ روکیں، میں نے کہا مجھے ججز لانے دیں، میرا مسئلہ ہے کہ میں مختلف نوعیت کا جج ہوں، خط لکھنے والے ججز اگر کمیشن اجلاس تک انتظار کر لیتے تو اچھا ہوتا، اسلام آباد ہائی کورٹ کی سنیا ر ٹی لسٹ میں ایک نام شامل کرنے پر اعتراض کیا تھا، ٹرانسفر کو سنیارٹی سے مکس نہیں کرنا چاہیے ۔
ججز سنیارٹی پر میری رائے پر متعلقہ عدالت حتمی فیصلہ کرے گی، اپنی رائے دے چکا ہوں اس لیے اگر کیس آیا تو بنچ کا حصہ نہیں بنوں گا، ججز کو اعتراض لاہور کی نامزدگیوں پر بھی تھا، کمیشن نے لاہور سے تعیناتی نہیں کی، اگر ججز بائیکاٹ نہ کرتے تو ایک بہترین جج سپریم کورٹ آ سکتے تھے، ججز کی عدم موجود گی میں بھی ان کے تحفظات کا خیال رکھا گیا،کسی کو رائے کے اظہار سے روک نہیں سکتا، مجھ سے پہلے ججز کو خط میڈیا کو مل جاتا ہے، ججز کا خط ابھی کھولا بھی نہیں تھا کہ خبر ٹی وی پر چل رہی تھی۔
اس معاملے میں قصور چیف جسٹس کا ہے کیونکہ میں بطور سربراہ میں انکے مسائل حل نہیں کر پا رہا، ججز کے اٹھائے گئے مسائل جوڈیشل کمیشن اجلاس میں حل کر دیے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی سنیارٹی کا مسئلہ بھی ججز کے اعتراض کے مطابق ڈیل کیا، لاہور ہائی کورٹ پر ججز کو اعتراض تھا وہاں سے کسی کی تعیناتی نہیں کی، ساتھی ججز کو درخواست کی تھی کہ سسٹم کو چلنے دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جسٹس گل حسن اورنگزیب کو سپریم کورٹ کا جج بنانا چاہتا تھا، میرے بھائی ججز جو کارپوریٹ کیسز کرتے تھے، وہ آجکل کیسز ہی نہیں سن رہے، کمیشن کو کہا مجھے ٹیکس اور کارپوریٹ والے ججز درکار ہیں، کمیشن ارکان نے کہا رولز کے مطابق دو مرتبہ ووٹنگ ہوچکی ہے، ایک تجویز آئی کہ عارضی جج لگا دیں پھر وہ سپریم کورٹ میں بھی مستقل ہوسکیں گے، اگر کل ججز بائیکاٹ نہ کرتے تو ایک سینئر اچھا ججز آجاتا۔
جب وقت آئے گا جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب کا نام چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کے لیے زیر غور ہو گا، چیف جسٹس نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے تمام ججز کو ایک ساتھ بلا کر بات کی تھی، تمام ججز
نے کہا جو بھی سپریم کورٹ آئے انہیں اعتراض نہیں ہوگا، چیف جسٹس نے کہا کہ جیلوں میں جاتا ہوں تو لوگ مجھے قصوروار سمجھتے ہیں، آئندہ ہفتے سے دو مستقل بینچ صرف کرمنل مقدمات سنیں گے، ججز ہونگے تو ہی بنچز بنا سکوں گا۔

کیپشن: The IMF delegation met with the Chief Justice, informed about the judicial system and reforms