ایک نیوز: لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران عدالت نے تفتیشی افسران کی کارکردگی کو مایوس کن قرار دیدیا۔
تفصیلات کے مطابق سندھ ہائیکورٹ میں شہری نعیم اللہ سمیت دیگر لاپتا افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت ہوئی۔ جسٹس نعمت اللہ پھلپھوٹو نے درخواستوں پر سماعت کی۔
دوران سماعت عدالت نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر تفتیشی افسران کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ جسٹس نعمت اللہ نے کہا کہ دس سال گزرنے کے باوجود حراستی مراکز کی رپورٹس تک نہیں حاصل کرپاتے۔ لاپتا افراد کے اہلخانہ قرب میں مبتلا ہیں دادرسی ہونی چاہئے۔
عدالت نے آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کو معاملات کا جائزہ لینے کا حکم دیتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ لاپتا افراد کی عدم بازیابی سنجیدہ معاملہ ہے، آئی جی اور ڈی آئی جیز ذاتی طور پر اسے دیکھیں۔
عدالت نے لاپتا افراد کا نام اور تفصیلات پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر نشر کرنے کا حکم دیدیا۔ اس کے علاوہ سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری دفاع کو بھی رپورٹس پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
عدالت نے کے پی کے حراستی مراکز میں قید شہریوں کے نام اور فہرست طلب کرتے ہوئے متعلقہ اداروں کو 7 مارچ تک رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔
درخواست گزار کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ نعیم اللہ 2015 سے لاپتا ہے۔ جسٹس نعمت اللہ نے تفتیشی افسر سے استفسار کیا کہ حراستی مراکز کی رپورٹ کہاں ہے؟ اس پر تفتیشی افسر نے کہا کہ خطوط لکھے ہیں تاحال رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔