ایک نیوز: سپریم کورٹ کی جانب سے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لے لیا گیا۔چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیتے ہوئے کہاکہ تاحیات نااہلی بارے سپریم کورٹ کا فیصلہ اور الیکشن ایکٹ ایک ساتھ نہیں چل سکتے،الیکشن ایکٹ میں ترمیم اور سپریم کورٹ کے فیصلے میں کسی ایک کو برقرار رکھنا ہوگا۔
تفصیلات کے مطابق پیر کے روز سپریم کورٹ نے تاحیات نااہلی کے معاملہ پر عدالتی فیصلے اور الیکشن ایکٹ کی ترمیم میں تضاد پر نوٹس لیتے ہوئے اٹارنی جنرل اور تمام صوبائی ایڈووکیٹ جنرلز کو نوٹس جاری کردیئے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے تاحیات نااہلی کی مدت کے تعین کا معاملہ لارجر بینچ کے سامنے مقرر کرنے کیلئے ججز کمیٹی کو بھی بھجوا دیا گیا جبکہ کیس کی سماعت جنوری 2024 میں ہوگی۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ موجودہ کیس کو انتخابات میں تاخیر کے آلہ کار کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا، کیس کا نوٹس 2 انگریزی کے بڑے اخبارات میں شائع کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے نوٹس میر بادشاہ قیصرانی کی تاحیات نااہلی کے کیس میں لیا۔
سماعت کا احوال
کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ موجودہ کیس 2018 کے انتخابات سے متعلق ہے، اب نئے انتخابات سر پر ہیں تو یہ قابل سماعت معاملہ کیسے ہے؟
درخواست گزار کے وکیل ثاقب جیلانی نے بتایا کہ موجودہ کیس کا اثر آئندہ انتخابات پر بھی ہوگا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ میر بادشاہ قیصرانی کو نااہل کیوں کیا گیا؟۔
وکیل نے بتایا کہ انہیں جعلی ڈگری کی بنیاد پر 2007 میں 62 ایف ون کے تحت نا اہل کیا گیا تھا، ہائیکورٹ نے 2018 کے انتخابات میں میر بادشاہ کو لڑنے کی اجازت دے دی تھی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کے اس کیس سے موجودہ انتخابات متاثر ہوں گے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر کسی کی سزا ختم ہو جائے تو تاحیات نااہلی کیسے رہ سکتی ہے؟۔
وکیل نے جواب دیا کہ جھوٹے بیان حلفی پر کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے کو نااہل ہی ہونا چاہیے،سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح پر پاناما کیس میں فیصلہ دیا تھا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کی تاحیات نااہلی کے معاملے پر 2 آرا ہیں، نیب کیسز میں نااہلی کی سخت سزا ہے تو قتل کی صورت میں کتنی نااہلی ہوگی؟۔
وکیل نے جواب دیا کہ قتل کے جرم میں سیاست دان کی نااہلی 5 سال کی ہوگی۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ بچے کے ساتھ زیادتی جیسے سنگین جرم کی سزا بھی 5 سال نااہلی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ تاحیات نااہلی اور آرٹیکل 62 ون ایف سے متعلق کوئی نیا قانون بھی آچکا ہے؟
وکیلِ صفائی نے کہا کہ حال ہی میں الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے نااہلی کی زیادہ سے زیادہ مدت 5 سال کر دی ہے۔
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے ریمارکس دیئےکہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کر کے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے فیصلے کا اثر ختم کرسکتی ہے،الیکشن ایکٹ میں سیکشن 232 شامل کر کے سپریم کورٹ کا آرٹیکل 62ون ایف کا فیصلہ غیر مؤثر ہو چکا۔
چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کسی نے چیلنج نہیں کیں،جب الیکشن ایکٹ میں ترمیم چیلنج نہیں ہوئیں تو دوسرا فریق اس پر انحصار کرے گا،الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 232 شامل کرنے سے تو تاحیات نا اہلی کا تصور ختم ہو گیا ہے، انتخابات سر پر ہیں، ریٹرننگ افسر، الیکشن ٹریبونل اور عدالتیں اس مخمصے میں رہیں گی کہ الیکشن ایکٹ پر انحصار کریں یا سپریم کورٹ کے فیصلے پر۔
درخواست گزار کے وکیل نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کو حکم دے کہ اپیل پر فیصلہ کرے۔
کیس پر چیف جسٹس کے ریمارکس
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ ہائی کورٹ کو حکم نہیں دے سکتی، ہم ہائی کورٹ پر مانیٹرنگ جج نہیں بیٹھے ہوئے، ہم ہائی کورٹ میں زیرالتوا اپیل کے معاملے پر نہیں آئینی معاملے پر فیصلہ کریں گے، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت پر آئین خاموش ہے، آرٹیکل 63 ون جی میں پاکستان کی تباہی کرنےوالےکی نااہلی 5سال ہے، آرٹیکل 63 ون ایچ میں اخلاقی جرائم پر نااہلی 3سال ہے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید ریمارکس دیئے کہ شادی کے وقت جن شرائط پر رشتہ دیتے ہیں وہ پوری نہ ہوں تو شادی ختم تو نہیں ہوتی، یہ مثال صرف سمجھانے کی غرض سے دی ہے، امین تو صرف ہم ایک ہی شخصیت کو کہتے ہیں باقی کوئی اس درجے پر نہیں پہنچ سکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ ہر شخص ہر وقت سچ تو نہیں بولتا، اصل نااہلی تو آرٹیکل 63 میں ہے، پاکستان کی تباہی کرنے والے کو دوبارہ سیاست میں آنا ہی نہیں چاہیے، مگر پاکستان کی تباہی کرنے والے کی نااہلی بھی 5 سال ہے، آئین کی زبان کو دیکھنا ہوتا ہے ہر چیز آئین میں واضح درج نہیں، جو آئین میں واضح نہیں اس کی سپریم کورٹ تشریح کرسکتی ہے وضاحت نہیں، سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ کےسامنے نااہلی کی مدت کا معاملہ نہیں تھا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے، پارلیمنٹ کی قانون سازی دونوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، پارلیمنٹ کی قانون سازی چلے گی یا سپریم کورٹ کا فیصلہ، اونٹ کسی کروٹ تو بیٹھنا ہے، ایک طرف سپریم کورٹ کافیصلہ ہے دوسری جانب قانون، آر او کس پر انحصار کرے گا؟ انتخابات آ گئے ہیں مگر کسی کو پتہ نہیں وہ الیکشن لڑے گا یا نہیں۔